
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
آج کل لوگ بارہ ربیع الاول پر بڑے بڑے کیک لا کر کاٹتے ہیں، اس کاکیا حکم ہے؟ کیا یہ انگریزوں کے طریقے کے ساتھ مشابہت نہیں ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بارہ ربیع الاول کے موقع پر میلاد شریف کی خوشی میں کیک کاٹنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں کہ خوشی کے موقع پرکیک کاٹنا فی نفسہ ایک جائزکام ہے، نیز خوشی کےموقع پر کیک کاٹنا مسلمانوں میں بھی رائج ہے، لہٰذا یہ ایسا طریقہ نہیں کہ جو کفار کے ساتھ خاص ہو، جبکہ قوانین شرع کی روسےجو چیز کفار کا شعار خاص ہو، وہ مسلمان کے لیے اپنانا ممنوع ہوتا ہے۔ البتہ اس میں اس بات کا خیال ضروری ہے کہ کیک (cake) پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا نام مبارک، کعبہ معظمہ یا گنبد خضریٰ کانقشہ بنا کر اس پرچھری چلانا، اس کو کاٹنا ادب کے خلاف ہے، اس میں یہ قباحت ہے کہ لوگ کہیں گے، کیک کاٹنے والے نے گنبد خضریٰ یا کعبہ معظمہ کو کاٹ دیا، ٹکڑوں میں تقسیم کردیا، ان کو کھا لیا، معاذ اللہ۔ اور حکم شرع یہ ہے کہ جس طرح آدمی کے لئے برے کام سے بچنا ضروری ہے، یونہی اسے برے نام و بری نسبت سے بھی بچنا چاہیے۔
کسی قوم سے مشابہت اختیار کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”من تشبہ بقوم فھو منھم“
ترجمہ: جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے، تو وہ انہیں میں سے ہے۔ ( سنن ابی داؤد، جلد4، صفحہ 78، حدیث: 4031، مطبوعہ ہند)
بیان کردہ حدیثِ پاک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:
”أي:من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار (فهو منهم) : أي فی الاثم والخير “
ترجمہ: یعنی جس نےاپنے آپ کو کفار کے مشابہ کیا، مثلا لباس وغیرہ میں یا فساق و فجار کے مشابہ کیا یا صوفیا، صلحااور نیک لوگوں کی مشابہت اختیار کی، تووہ اُنہی کے ساتھ ہو گا، یعنی (بُروں کے ساتھ )گناہ میں اور(اچھوں کے ساتھ) نیکی میں۔ (مرقاة المفاتیح، جلد7، صفحہ2782، حدیث: 4347، دارالفکر، بیروت)
امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ” تشبہ وہی ممنوع ومکروہ ہے، جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یاوہ شے ان بدمذہبوں کا شعارِخاص یافی نفسہ شرعاً کوئی حرج رکھتی ہو، بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 24، صفحہ 534، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوی رضویہ میں ہے "آدمی کو جیسے بُرے کام سے بچنا ضرورہے یوہیں برے نام سے بھی بچناچاہئے۔ غیرجاندار کی تصویر بنانی اگرچہ جائز ہے، مگر دینی معظم چیز مثل مسجد جامع وغیرہ کی تصویروں میں انہیں توڑنا اور کھانا خلاف ادب ہوگا اور وہی بری نسبت بھی لازم آئے گی کہ فلاں شخص نے مسجد توڑی، مسجد کوکھالیا۔" (فتاوی رضویہ، ج24، ص560، رضافاونڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4152
تاریخ اجراء: 01ربیع الاول1447ھ/26اگست2025ء