گلیکسی رنگ (انگوٹھی) پہننے کا شرعی حکم

گلیکسی رنگ (انگوٹھی) پہننے کا کیا حکم ہے؟

مجیب:محمد ساجد عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن   محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:MUI-0326

تاریخ اجراء:15 ربیع الاول1446 ھ / 19 ستمبر    2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا  فرماتے ہیں علمائے کرام اس  مسئلے میں  کے بارے میں  کہ گلیکسی رنگ (انگوٹھی) پہننے کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ عام انگوٹھی کی طرح ہے؟

   گلیکسی رنگ کی تفصیلات:

   اندرونی سطح: ایپوکسی۔          بیرونی سطح:  ٹائٹینیم۔

   گلیکسی رنگ کی چوڑائی 7 ملی میٹر، موٹائی 2.6 اور وزن 2.3 گرام ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ آپ کے ڈیٹا کا تجزیہ کرتی ہے اور آپ کو بہتر صحت اور نیند کے لیے ذاتی نوعیت کی تجاویز فراہم کرتی ہے۔ گلیکسی رنگ صحت کی نگرانی، ٹریکنگ، اور ذاتی بصیرت فراہم کرتی ہے اور اسے انگلی میں پہنناآرام دہ ہے، یہاں تک کہ نیند کے دوران بھی۔ یہ سب چیزیں اسمارٹ فون سے کنیکٹ ہوکر فون میں ظاہر ہوتی ہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مردوں کے لیے گیلکسی انگوٹھی پہننا جائز نہیں۔ ہاں عورتوں کے لیے  گیلکسی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔

   اس میں تفصیل یہ ہے کہ گیلکسی انگوٹھی کا بیرونی  اور اکثر  حصہ  ٹائٹینیم کا ہے اور ٹائٹینیم ایک چمک دار دھات ہے جو چاندی سے بھی ہلکی ہوتی ہے۔ اور اس کی اندرونی سطح جوجلد سے ملی ہوتی ہے وہ ایپوکسی کی ہوتی ہے، اور ایپوکسی ایک کیمیائی مادہ ہے جو دو مختلف اجزا؛ ریزن (Resin) اور ہارڈنر (Hardener) کو ملا کر بنایا جاتا ہے، اور مختلف سطحوں کو جوڑنے، مرمت کرنے، یا سطح کو پالش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔   یہ  چیز  اگرچہ دھات نہیں لیکن ٹائٹینیم کے مقابل کم مقدار میں انگوٹھی میں لگی ہوتی ہے۔ اس لئے مجموعی طور پر اسے دھات سے بنی انگوٹھی ہی قرار دیا جائے گا۔

   اور شریعت مطہرہ کی جانب سے مرد کوچاندی کی صرف ایک نگ کی ایک  انگوٹھی پہننے کی اجازت ہے جس کا وزن ساڑھے چار ماشے  (یعنی 4 گرام، 374  ملی گرام) سے کم ہو، اس کے سو ا  مردوں کو کسی بھی دھات کی انگوٹھی یا زیور  پہننے کی اجازت نہیں۔ لہذا  مرد کے لیے  گیلکسی رنگ  پہننا جائز نہیں۔

   نیز سوال میں جو اس کے مقاصد گنائےہیں  ان کی وجہ سے بھی اسے پہننے کی اجازت نہیں؛ کیونکہ  ظاہر ہے وہ ایسی چیز یں نہیں کہ ان  کے بغیرآدمی کا کام نہ چل سکےیا آدمی مشقت میں پڑجائے، بلکہ وہ  محض منفعت ہے اور    اسے حاصل کرنے کے لیے کوئی ناجائز کام مباح نہیں ہوسکتا۔

   سنن ترمذی میں ہے :حضرت سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں: ’’جاء رجل إلى النبي صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و عليه خاتم من حديد، فقال: «ما لي أرى عليك حلية أهل النار؟»، ثم جاءه و عليه خاتم من صفر، فقال: «ما لي أجد منك ريح الأصنام؟»، ثم أتاه و عليه خاتم من ذهب، فقال: «ما لي أرى عليك حلية أهل الجنة؟»، قال: من أي شيء أتخذه؟ قال: «من ورق، و لا تتمه مثقالا»‘‘ ترجمہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں  لوہے کی انگوٹھی پہن کر آئے، آپ نے فرمایا:کیا بات ہے کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہوئے ہو؟ انھوں نے وہ انگوٹھی اتار دی، پھر پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے حاضر ہوئے، فرمایا:کیا بات ہے کہ تم سے بتوں کی بو آتی ہے؟  اسے بھی اتار دی، اس کے بعد سونے کی انگوٹھی پہن کرحاضر ہوئے، فرمایا :کیا بات ہے کہ جنتیوں کا زیورپہن کر آئے ہو؟ انہوں نے اسے بھی اتاری اور عرض کی: یارسول اﷲ! کس چیز کی انگوٹھی بناؤں؟ فرمایا: چاندی کی بناؤ اور ایک مثقال پورا نہ کرو۔(سنن الترمذي ابواب اللباس، جلد 1، صفحه 210، مجلس البركات)

   درمختار میں ہے: ”و لا يتحلى الرجل بذهب و فضة مطلقا الا بخاتم فضۃ فيحرم بغيرها كحديد و صفر و غيرها۔ملخصا ترجمہ: مرد کو سونا چاندی کا زیور پہننا مطلقا ناجائز ہے سوائے چاندی کی ایک انگوٹھی کے، اس کے علاوہ دیگر دھات مثلا لوہا، پیتل وغیرہ کی انگوٹھی (یا زیور) پہننا حرام ہے۔ ملخصا(الدرالمختار شر ح تنوير الابصار، صفحه 654، دار الكتب العلمية، بيروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’ہاتھ خواہ پاؤں میں تانبے، سونے، چاندی، پیتل، لوہے کے چھلّے  یا سونے خواہ تانبے، پیتل،لوہے کی انگوٹھی، اگرچہ ایک تارکی ہو یاساڑھے چارماشے چاندی یا کئی نگ کی انگوٹھی یاکئی انگوٹھیاں، اگرچہ سب مل کر ایک ہی ماشہ کی ہوں کہ یہ سب چیزیں مردوں کوحرام وناجائز ہیں۔“ ملخصا(فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 307، برکات رضا، پوربندر)

   اعلی حضرت ایک  مقام پر فرماتے ہیں :”مجرد تحصیل ِمنفعت کےلئے کوئی ممنوع مباح نہیں ہوسکتا،  مثلا جائز نوکری تیس روپیہ ماہوار کی ملتی ہواور ناجائز ڈیڑھ سو روپیہ مہینہ کی تو اس ایک سو بیس روپے ماہانہ نفع کے لئے ناجائز کا اختیار حرام ہے۔“

   مزید فرماتے ہیں :”اگر وہ مقصد ضرورت وحاجت صحیحہ موجب حرام وضرورت مشقت شدیدہ تک نہ پہنچا جب بھی ناجائز کہ منفعت کے لئے ناجائز جائز نہیں ہوسکتا۔“(فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 197،198، بر کات رضا، پوربندر)

   یہی وجہ ہے کہ آپ نے محض منفعت کو حاصل کرنے کے لیے لوہے وغیرہ پہننے کی اجازت نہیں دی، چنانچہ آپ سے سوال ہوا کہ لوہے یا تانبے کا چھلا یہ پہننا جائز ہے یانہیں؟ اور بعض لوگ اس گمان سے پہنتے ہیں کہ ہمیں مہاسے وغیرہ کو مفید ہوتاہے انھیں بھی جائز ہوگا یانہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا :لوہے، پیتل، رانگ کا زیور مباح نہیں اور عوام کا یہ اختراعی خیال ممانعت شرع کو رفع نہیں کرسکتا کہ اگر ناجائز چیز کو دوا کے لئے استعمال کرنا بھی ہو تو وہاں کہ اس کے سوا دوا نہ ملے، اوریہ امر طبیب حاذق مسلمان غیر فاسق کے اخبار سے معلوم ہو اور یہاں دونوں امر متحقق نہیں۔ملخصا“( فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 153تا 154، برکات رضا پوربندر)

   سیم سنگ کمپنی جس نے اسے لانچ کیا ہے اس کی ویب سائٹ پر اس کے متعلق لکھا ہے: The Galaxy Ring has a robust titanium casing which provides superior levels of protection and durability. Titanium is known for its lightweight and resilient properties. (ترجمہ: گیلکسی  انگوٹھی  کا کیس مضبوط ٹائٹینیم سے بنا ہوا ہے جو اعلیٰ درجے کے تحفظ اور پائیداری فراہم کرتا ہے۔ ٹائٹینیم اپنی ہلکی اور مضبوط خصوصیات کے لیے جانا جاتا ہے)۔

   ٹائٹینیم ایک دھات ہے اس کے متعلق ویکیپیڈیا پر لکھا ہے: Titanium is a chemical element; it has symbol TI and atomic number 22. Found in nature only as an oxide, it can be reduced to produce a lustrous transition metal with a silver color, low density, and high strength, resistant to corrosion in sea water, aqua regia, and chlorine (      ترجمہ       : Titaniumایک کیمیائی عنصر ہے جس کا ایٹمی نمبر 22 ہے۔ یہ قدرتی طور پر  صرف آکسائیڈ کی صورت میں پایا جاتا ہے، اور اسے کم کرکے ایک چمکدار عبوری دھات تیار کی جاتی ہے۔ اس دھات کی خصوصیات میں چاندی جیسا رنگ، کم کثافت، اور اعلیٰ مضبوطی شامل ہیں۔ Titaniumسمندری پانی، ایکوا ریگیا (تیزاب کا ایک طاقتور مرکب)، اور کلورین کے خلاف زنگ نہیں لگنے دیتا، یعنی یہ دھات بہت زیادہ زنگ سے محفوظ رہتی ہے)۔

https://en.m.wikipedia.org/wiki/Titanium

   واضح رہے کہ  اصول کے مطابق عورتوں کو  بھی  سونا چاندی  کے علاوہ دیگر دھاتوں کےزیورات پہننا جائز نہیں  ہے۔ لیکن  آج کل  خواتین میں آرٹیفیشل زیور جو سونے چاندی کے علاوہ دھات سے بنا ہوتا ہے، اس کے  پہننے پر عموم بلوی ہوگیا۔ اس لئے خواتین کے لئے فی زمانہ دیگر دھات کے زیور پہننا بھی جائز ہے۔ اس کے متعلق دار الافتاء اہل سنت کا تفصیلی فتوی جاری ہو چکا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے وہ ملاحظہ فرمائیں۔

   اشکال :یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ انگوٹھی کا کچھ حصہ ایپوکسی کا بھی ہوتا ہے، تو آپ نے صرف ٹائٹینیم کی بنیاد پر اسے نا جائز کیوں قرار دے دیا۔

   جواب:  اس انگوٹھی   میں ٹائٹینیم غالب ہے، جیساکہ اسے دیکھنے سے خود ظاہر ہوجائے گا، کہ اس کا جو بیرونی  حجم ہے وہ موٹا اور چوڑا ہے۔ جبکہ اندرونی سطح   ایک پتلی تہہ ہے۔ نیز یہاں اصل مقصود بھی ٹائیٹینیم ہے، ایپوکسی نہیں کہ پہننا اس کی طرف منسوب ہوتا ہے، ایپوکسی کی طرف  نہیں، مثلا اس  گیلکسی رنگ کو  جو بھی پہنے گا تو یہی کہا جائے گا کہ اس نے  ایک ٹائٹینیم دھات کی انگوٹھی پہنی ہے، جس کمپنی نے اسے لانچ کیا ہے اس نے بھی اسے ٹائٹینیم رنگ کا نام دیا ہے۔ اور انگوٹھی   میں اگر   کوئی دوسری  چیز بھی لگی ہوتو اعتبار اس کا ہے  جو غالب ہویا  جو لبس میں  مقصود  ہو۔  لہذا یہ پوری انگوٹھی  ٹائٹینیم کے حکم میں ہے، اس لیے ا س کا پہننا جائز نہیں۔

   سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”و معلوم ان المرکب من الشیئ و غیرہ غیرہ غیر ان العرف بل و الشرع و اللغۃ جمیعا تلاحظ الغلبۃ   (ترجمہ: یہ معلوم ہے کہ جو چیز کسی چیز اور اُس کے غیر سے مرکب ہوتی ہے وہ اس کا غیر ہوتی ہے، لیکن عرف، شریعت اور لغت  سب ہی میں غلبہ کا اعتبار ہوتا ہے)۔“ ...مزید فرماتے ہیں :”  اجماع  لغت و عرف و شرع ہےکہ دو چیزوں سے مرکب میں حکم غالب کے لیے ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 2، صفحہ 675،689، برکات رضا پوربندر)

   یہی اعلی حضرت لبس میں  مقصود و غیر مقصود کے حوالے سے فرماتے ہیں: کسی کتاب سے ثابت نہیں کہ تبعیت کےلئے دوختہ یا بافتہ یا نفس ذات تابع میں سیم وزر وابریشم کا کسی چیزسے مخلوط ہونا ضرور ہو۔ ہاں تابع کی متبوع سے معیت چاہئے کہ نہ خود اجناس مختلفہ سے ترکب، متون مذہب میں تصریح ہے کہ جبہ وغیرہ میں ریشم کا ابرہ یا استرمرد کو ناجائز ہیں کہ دونوں مقصود ہیں اور اس کے اندر ر یشم کا حشو جائز کہ وہ تابع ہے حالانکہ یہ بھی نہ بافتہ ہے نہ مخلوط...ہمارا دعوٰی نہ تھا کہ ہر چیز جو دوسرے کے ساتھ استعمال میں آتی ہو مطلقا تابع ہے بلکہ تبعیت اس لئے کہ لبس اس کی طرف مضاف نہیں ہوتا۔ملخصا“(فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 121، 124، برکات رضا پوربندر)

   اشکال :سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں کا محض پہننا ممنوع نہیں، بلکہ  بطور زینت پہننا ممنوع ہے۔اوریہ انگوٹھی پہننا بطور زینت نہیں ہوتا بلکہ دیگر مقاصد کے لئے ہوتا ہے تو یہ زیور کیسے ہوگیا؟

   جواب :اگرچہ اس کا پہننا دیگر مقاصد کے لیے ہوتا ہے، مگر  اس شے کا انگوٹھی کے طور پربننا خود اس کے زیور ہونے کی دلیل ہے۔ جیسے پہلے انگوٹھیاں مُہر کے لیے پہنی جاتی تھیں، لیکن  مقصدِ مُہر اس کے زیور ہونے سے مانع نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ  چاندی کی انگوٹھی کی حلت  پر نص شرعی  وارد ہونے کے سبب  اسے پہننا جائز ہے، لیکن اس کے علاوہ دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی انگوٹھی پہننے  کی ہر گز اجازت نہیں، اگر چہ اسے مہر کے لیے استعمال کیا جائے۔

   امام اہل سنت، اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: ان الخاتم یکون للتزین وللختم.ترجمہ : انگوٹھی زیب و زینت اور مہر کے لیے  ہوا کرتی ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 22، صفحہ 148، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اور  کتب فقہ میں تصریحات ہیں کہ چاندی کی انگوٹھی کے سوا کسی بھی دھات کی انگوٹھی پہننا  جائز نہیں کما فی در المختار و غیرہ من معتمدات الاسفار۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم