گردن کے دو پٹھوں کا حکم

گردن کے دو پٹھوں کا حکم

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع   متین اس بارے میں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:” حلال جانور کے سب اجزاء حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں ۔۔۔ (9) گردن کے دو پٹھے کہ شانوں تک کھنچے ہوتے ہیں ۔۔۔الخ “(فتاویٰ رضویہ ج۲۰ ص ۲۴۰ ، ۲۴۱)

یہ گردن کے دو پٹھے کیا مکروہ تحریمی ہیں یا تنزیہی ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حلال  مذبوح جانور کے گردن کے دو پٹھے جن کاذکر سوال میں ہے یہ مکروہ تحریمی نہیں ہیں بلکہ یہ  مکروہ تنزیہی ہیں۔لہذا انہیں کھانا گناہ نہیں لیکن کھانے سے بچنا چاہیے۔

تفصیل کچھ یوں ہے کہ گردن کے دو پٹھوں کی کراہت کا ذکر  امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ نے اپنے دوفتاوی میں کیا ہے۔ ان میں سے ایک مقام تو وہی ہے جس   کی عبارت سوال میں  مذکور ہے۔ اور دوسرا امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے اپنے تفصیلی فتوے میں اس بات کا ذکر  کیا ہے ۔اس کی عبارت درج ذیل ہے۔ چنانچہ  سوال ہوا کہ

بدن حیوان ماکول اللحم میں کیا کیا چیزیں مکروہ ہیں؟

اس کے جواب میں امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

سات چیزیں تو حدیثوں میں شمار کی گئیں: (۱) مرارہ یعنی پتہ (۲) مثانہ یعنی پھکنا (۳) حیاء یعنی فرج (۴) ذکر (۵) انثیین (۶) غدہ (۷) دم یعنی خون مسفوح۔

۔۔۔۔۔ یہ تو سات  بہت کتب مذہب، متون وشروح وفتاوٰی میں مصرح اور علامہ قاضی بدیع خوارزمی صاحب غنیہ الفقہاء وعلامہ شمس الدین محمد قہستانی شارح نقایہ وعلامہ محمد سیدی احمد مصری محشی درمختار وغیرہم علماء نے دو چیزیں اور زیادہ فرمائیں (۸) ۔۔۔ (۹)گردن کے دو پٹھے جو شانوں تک ممتد ہوتے ہیں، ۔۔۔ ۔۔بحرالمحیط میں ہے:

 الغدد والذکروالانثیان والمثانۃ و العصبان اللذان فی العنق والمرارۃ والقصید مکروہ اھ ملخصا۔

غدود، ذکر، خصیے، مثانہ، گردن کے دو پٹھے، پتہ، پیٹھ کاگودا مکروہ ہیں اھ ملخصا (ت)

۔۔۔۔۔ ذبائح الطحطاوی میں ہے:

الذکر والانثیان والمثانۃ والعصبان اللذان فی العنق والمرارۃ تحل مع الکراهۃ،..... وھل الکراهۃ تحریمیۃ اوتنزیهیۃ قولان

ذکر، خصیے، مثانہ، گردن کے دو پٹھے، پتہ کراہت کے ساتھ حلال ہیں۔۔۔ اور کیا یہ کراہت تحریمی ہے یا تنزیہی؟ یہ  دونوں قول ہیں۔(ملتقطا) (فتاوی رضویہ،جلد 20، صفحہ236 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

یونہی امام اہل سنت علیہ الرحمۃ جد الممتار میں لکھتے ہیں:

”زاد الطحطاوي في الذبائح العصبتين اللذين في العنق “

علامہ طحطاوی نے کتاب الذبائح میں گردن کے دو پٹھوں کی کراہت کا بھی اضافہ کیا ہے۔  (جد الممتار، جلد7، صفحہ235،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان عبارات میں کراہت  کا کوئی درجہ  واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا بلکہ یا تو مطلق کراہت کا ذکر ہے یا تحریمی و تنزیہی کے دو اقوال کا بلا ترجیح بیان ہے۔اور کراہت کی کوئی علت  بھی مذکور  نہیں کہ جس سے کراہت کا درجہ متعین کیا جا سکے۔

کراہتِ تنزیہی راجح ہونے پر دلائل و قرائن:

 لیکن درج ذیل  چند  دیگر اعتبارات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں  جس کراہت کا ذکر ہے وہ تنزیہی درجے کی کراہت  ہے :

1.             اس پر ایک دلیل تو یہ ہے کہ  ماکول اللحم جانور میں  جب  تک شرعی ذبح ثابت نہ ہو تب تک تواس میں اصل حرمت ہے۔ لیکن جب ذبح شرعی ہونا ثابت ہو جائے تو اب اس مذبوح ماکول اللحم  جانور میں  اصل  حلت ہے۔چنانچہ اللہ کا نام لے کر جو جانور ذبح کیا گیا ہو اس کے متعلق قرآن پاک میں اللہ تعالی  ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ

ترجمہ کنز الایمان: اور تمہیں کیا ہوا کہ اس میں سے نہ کھاؤ جس  پر اللہ کا نام لیا گیا وہ تو تم سے مُفَصَّل بیان کرچکا جو کچھ تم پر حرام ہوا۔(سورہ انعام، آیت: 119)

اس آیت کے تحت صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ” اس سے ثابت ہوا کہ حرام چیزوں کا مفصّل ذکر ہوتا ہے اور ثبوتِ حُرمت کے لئے حکمِ حُرمت درکار ہے اور جس چیز پر شریعت میں حُرمت کا حکم نہ ہو وہ مباح ہے ۔ “(خزائن العرفان ، تحت الایۃ)

علامہ ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ  مذبوح جانور میں حلت کا اصل ہونا بیان کرتے ہوئے  فتاوی حمادیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

” وجميع ما كان في المذبوح المأكول  سوى ما كره النبي ﷺ، وهو سبعة أشياء۔۔۔۔۔ وما سوى ذلك فهو مباح على اصله لان الاصل في الاشياء الاباحة كذا في الفتاوى الحمادية۔

یعنی ذبح کیے ہوئے کھانے والے جانور کا سب کچھ  مباح ہے  سوائے  اس کے جو نبی کریم ﷺ نے ناپسند فرمایا، وہ سات چیزیں ہیں۔ کیونکہ اشیاء  میں  اصل  اباحت ہے ۔ ایسا  فتاویٰ حمادیہ میں ہے۔(فاكهة البستان، ص172و173، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

درمختار اور اس کی شرح طوالع الانوار میں ہے:

وما فی الھلالین من الدر”(إذا ما ذكيت شاة فكلها ... سوى سبع ففيهن الوبال) اي ففي اكلهن الوبال اي الاثم وهذا يشير الي الكراهة التحريمية او الى الحرمة  وهي في الدم مسلمة وفيما عدها لا تتقر الا بعد تقرر خبثها “

جب کوئی بکری ذبح کی جائے تو اس کا گوشت کھاؤ... سوائے سات چیزوں کے، کیونکہ ان میں وبال ہے۔ مطلب  ان کو کھانے میں وبال یعنی گناہ ہے۔ اور یہ تحریمی کراہت یا حرمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خون کے بارے میں تو حرمت مسلم ہے۔ اور باقی اشیاء کے بارے میں خبث ثابت ہونے کے بعد ہی حرمت  ثابت ہو سکتی ہے۔     (طوالع الانوار شرح درمختار، كتاب الكراهية، مخطوط)

درمختار کی عبارت

” فكلها ... سوى سبع “ اور صاحب طوالع الانوار کا یہ فرمان” لا تتقر الا بعد تقرر خبثها “

 اس بات کی طرف واضح رہنمائی ہے کہ ماکول اللحم مذبوح جانور کے کسی جزو میں  حرمت یا کراہت تحریمی  کا ثبوت ، دلیل و علتِ تحریم کے بعد ہی ہو سکتا ہے ورنہ وہ اصل اباحت پر ہوگا۔

 جب یہ بات ثابت  ہوگئی تو اب  اگر دیکھیں تو ماکول اللحم مذبوح جانور کی گردن کے پٹھوں کے مکروہ تحریمی ہونے کی کوئی دلیل یا علت ثابت نہیں ہے کیونکہ پٹھے نہ تو خود  ناپاک  ہیں اور نہ کوئی محل نجاست و قذر (گندگی) ہیں  کہ جس کی بنیاد پر اسےطبعی گھن والی    خبیث اشیاء میں شمار کیا جائے۔علاوہ ازیں امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے اجزاءِ حیوان کے متعلق اپنے تفصیلی فتوے میں علتِ خباثت کی بنیاد پر مختلف گندی  چیزوں کی ممانعت بیان کی  جن میں  اوجھڑی ،  آنتیں ،  دُبر  وغیرہ  ہیں۔ان چیزوں  میں موجود وجہِ خبث کی  بھی وضاحت فرمائی  کہ ان کا تعلق نجاست یا بدبودار  قسم کی گندی چیزوں سے ہے اس لئے یہ خبیث  ہیں۔ لیکن  گردن کے ان دو پٹھوں سے متعلق  ایسی کوئی وضاحت نہیں فرمائی ۔ یہ قرینہ ہے اس بات کا کہ امام اہل سنت علیہ الرحمہ کے نزدیک بھی یہ خبیث  نہیں ۔لہذا گردن کے یہ دو پٹھے نہ نجس ہیں نہ خبیث ہیں ، نہ اس کے علاوہ کراہت تحریمی  کی کوئی اور علت موجود ہے ۔اور    جب تک کراہتِ تحریمی کے راجح ہونے  کی  صراحت   یا  کراہت تحریمی کا تقاضا کرنے والی علت و دلیل   ثابت نہ ہو  تب تک اصل ثابت شدہ حکم(حلال ہونا) ختم  کر کے کراہتِ تحریمی کا قول نہیں کیا جاسکتا۔ہاں کراہت تنزیہی چونکہ حکمِ حلت کے ساتھ جمع ہو سکتی ہے، اس لئے مذکورہ عبارات میں کراہت کی صراحت کو تنزیہی درجے پر محمول کر کے عبارات میں موافقت و مطابقت باقی رکھی جائے گی۔

2.             دوسری دلیل یہ ہے کہ  فقہاء کرام نے مذبوح  حلال جانور کے پٹھوں کو مطلقا ً یعنی   بغیر کسی استثناء کے مباح لکھا  ہے۔ چنانچہ فاکھۃ البستان میں علامہ ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ فتاوی حمادیہ کے حوالے سےنقل کرتے ہیں :

” (ومنها تاكلون ) اي من البانها  وما يتخذ منها كالسمن والزبدة وغير ذلك ولحومها وقرونها  وعصبها وجلودها وأطرافها وعظامها ومخها وعروقها وشحومها۔۔۔۔ كذا في الفتاوى الحمادية

ملتقطا  اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ان جانوروں سے تمہاری خوراک ہے ۔یعنی ان کے دودھ اور اس دودھ سے بننے والی چیزیں جیسے مکھن، گھی اور اس کے علاوہ اور بھی چیزیں، اور اس کے گوشت، سینگ، پٹھے، کھال، پاؤں، ہڈیاں، گودا، رگیں، چربی ۔ ایسا  فتاویٰ حمادیہ میں ہے۔ (فاكهة البستان، ص172و173، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

تو فقہاء کرام نے جو علی الاطلاق   جانور کے پٹھوں کو مباح قرار دیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ دوسری جگہ اگر کراہت کا ذکر ہے تو وہ تنزیہی درجے کی کراہت ہو۔اس طرح عبارات میں تضاد پیدا نہیں ہوگا بلکہ  تطبیق رہے گی  کیونکہ  مباح  ہونا کراہت تنزیہی کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے ۔ کما لا یخفی

3.             کراہت تنزیہی مختار ہونے پرتیسری  بات یہ ہے کہ امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے علامہ قاضی بدیع خوارزمی صاحبِ غنیۃ الفقہاء  اور علامہ قہستانی شارحِ نقایہ کی جو عبارت ملخصاً نقل کی   وہ مکمل عبارت یوں ہے:

” حل الغدد  والذكر والانثيان والمثانة والعصبان اللذان في العنق  والمرارة والقصيد الا انه مكروه  كراهة تنزيه كما في بحر المحيط “

(جامع الرموز، کتاب الذبائح، جلد2، صفحہ350، ایچ ایم سعید کراچی)

اس عبارت میں  ایک تو کراہت کے تنزیہی ہونے کی صراحت ہے اور دوسرا یہ کہ شروع میں لفظ ” حل “ بھی موجود ہے جو اس کراہت کے تنزیہی ہونے پر دلالت کرتا ہے  جیسا کہ  جد الممتار میں ہے:

” ظاهره أنّها تنزيهية، فإنّ المكروه تحريماً لا يوصف بالحلّ “

بلکہ اس عبارت کا ظاہر یہ ہے کہ یہ کراہت تنزیہی ہے، کیونکہ مکروہ تحریمی کو حلال نہیں کہا جاسکتا۔(جد الممتار، جلد7، صفحہ9، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عبارت میں مذکور تمام اشیاء مکروہ تنزیہی ہیں ۔ لیکن چونکہ  غدود، ذَکر، خصیے، مثانہ اور مرارۃ  کے متعلق دیگر دلائل ومعتمد فقہاء کے اقوال سے یہ بات ثابت ہو چکی  ہے  کہ ان اشیاء کی کراہت ،  تنزیہی نہیں بلکہ تحریمی ہے(تفصیل کے لئے دیکھئے امام اہل سنت علیہ الرحمۃ  کا مذکورہ تفصیلی فتوی ۔) لہذا ان اشیاء کے متعلق  کراہتِ تنزیہی کا قول تو ضعیف  شمار ہوگا ۔ لیکن گردن کے دونوں پٹھوں کے متعلق   چونکہ کراہتِ تحریمی کے راجح ہونے پر کوئی  صراحت و دلائل موجود نہیں ہیں۔ اس لئے ان کے حق میں   غنیۃ الفقہاء و جامع الرموز کی اس عبارت میں جو کراہتِ تنزیہی کی صراحت ہے، اسے برقرار رکھا جائے گا۔ اوران پٹھوں کے متعلق  مکروہ تنزیہی ہونے کو ہی راجح قرار دیا جائے گا۔

سوال:

یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پٹھے ایسے سخت ہوتے ہیں کہ جب ان کوپکایا جائے تو یہ گلتے ہی نہیں تو کھانے کے قابل نہیں ہوتے اس لئے یہ مکروہ تحریمی ہوں گے کیونکہ ایسی چیز ضرر کا باعث ہوتی ہے۔

جواب:

ویسے تو آج کل پکانےکے جدید طریقوں کی مدد سے ایسی چیز کو گلانا اور کھانے کے قابل بنانا ممکن ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر اگر حلال جانور کا کوئی حصہ ایسی کیفیت میں ہو کہ گلانے سے نہ گلے تو یہ کوئی ایسی علت نہیں   جس کی وجہ سے اس کے مطلقا ً ناجائز ہونےکا حکم  لگادیا جائے۔ جیسا کہ  امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ سے خنثی جانور کی قربانی  کےمتعلق سوال ہوا تو ااس کے جواب میں آپ نے لکھا:

”خنثٰی کہ نر ومادہ دونوں کی علامتیں رکھتاہو، دونوں سے یکساں پیشاب آتاہو، کوئی وجہ ترجیح نہ رکھتاہو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں کہ اس کا گوشت کسی طرح پکائے نہیں پکتا، ویسے ذبح سے حلال ہوجائے گا، اگر کوئی کچا گوشت کھائے، کھائے،درمختارمیں ہے:

 ولابالخنثی لان لحمہا لاینضج، شرح وہبانیۃ۔

فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:

لاتجوز التضحیۃ بالشاۃ الخنثٰی لان لحمہا لاینضج، کذا فی القنیۃ ۔ “

           (فتاوی رضویہ،جلد20،صفحہ255 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اسی طرح گائے، بھینس، بکری، مرغ وغیرہ   حلال جانور کی کھال کھانے سے متعلق سوال ہوا تو اس کے جواب میں آپ لکھتے ہیں:

” مذبوح حلال جانور کی کھال بیشک حلال ہے۔ شرعا اس کا کھانا ممنوع نہیں اگر چہ گائے ، بھینس بکری کی کھال کھانے کے قابل نہیں ہوتی۔

فی الدرالمختار اذا ماذکیت شاۃ فکلہا ÷ سوی سبع ففیہن الوبال ، فحاء ثم خاء ثم غین ÷ ودال ثم میمان وذال انتہی فالحاء الحیاء وھو الفرج، والخاء الخصیۃ، والغین الغدۃ، والدال الدم المسفوح، والمیمان المرارۃ والمثانۃ، والذال الذکر۔ وﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔ “

درمختارمیں ہے جب بکری ذبح کی گئی تو سات اجزاء جن میں وبال ہے ، ان کے ماسوا کو کھاؤ۔وہ  سات یہ ہیں: حاء، پھرخاء، پھر غین، اور دال، پھر دو میم، اور ذال۔ انتہی ۔ حا ء سے مراد حیاء  یعنی  شرمگاہ، خاءسے مراد خصیہ، غین  سے غدود، دال سے  دم مفسوخ ، اور دومیم سےمراد   مرارہ (پتہ) اور مثانہ، اور ذال  سے مراد ذَکَر ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد20،صفحہ255 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

امام اہل سنت علیہ الرحمہ کے ان فتاوی سے  واضح ہو گیا کہ مذبوح جانور کی کوئی چیز  اس وجہ سے ناجائز قرار نہیں پائے گی کہ وہ کھائے جانے کے قابل نہیں۔

اور جہاں تک باعثِ ضرر ہونے کی بات ہے تو باعث ِضرر چیز کو مطلقا ناجائز نہیں کہا جاتا ہے بلکہ وہ اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہی قرار پاتی  ہے۔ عدم جواز کا حکم اس وقت لگتا ہے جب اس حد تک کھائیں کہ ضرر پہنچنا مظنون ہو جائے جیسا کہ مٹی  کہ  حدضرر تک کھانا ممنوع ہےاور اس سے کم  میں گناہ نہیں۔ یونہی زہر،  حدِ ضرر تک کھانا گناہ ہے۔ اور زہر کی  حد ضرر سے کم مقدار دوائی میں شامل ہو تو کوئی حرج نہیں۔

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

 أكل الطين مكروه، هكذا ذكر في فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - وذكر شمس الأئمة الحلواني في شرح صومه إذا كان يخاف على نفسه أنه لو أكله أورثه ذلك علة أو آفة لا يباح له التناول، وكذلك هذا في كل شيء سوى الطين، وإن كان يتناول منه قليلا أو كان يفعل ذلك أحيانا لا بأس به، كذا في المحيط. “

 یعنی مٹی کھانا مکروہ ہے، جیسا کہ فتاویٰ ابو اللیث رحمہ اللہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ شمس الائمہ الحلوانی نے  کتاب الصوم کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ اگر کسی شخص کو اندیشہ ہو کہ مٹی کھانے سے اسے بیماری یا آفت پہنچے گی، تو اس کے لیے مٹی کھانا جائز نہیں ہے۔ اور  مٹی کے علاوہ دیگر  اشیاء کا بھی یہی حکم ہے ۔لہذا  اگر کوئی شخص تھوڑی مقدار میں یا  کبھی کبھار مٹی کھا لے تو اس میں کوئی حرج نہیں،اسی طرح محیط میں ذکر کیا گیا ہے۔(فتاوى هندیہ، جلد5، صفحہ 340، دار الفکر، بیروت)

اشکال:

1.             امام اہل سنت نے گردن کے دو پٹھوں سے متعلق طحطاوی  کتاب الذبائح کی جو  عبارت نقل کی اس میں یہ بات واضح موجود ہے کہ ان اشیاء میں کراہتِ تنزیہی اور کراہتِ تحریمی دونوں طرح کے قول موجود ہیں۔جس کا مطلب ہے،گردن کے پٹھوں کے متعلق بھی  ایک قول کراہت تحریمی کا ہے ۔اور دیگر مذکورہ  چیزوں میں  جب  مکروہ تحریمی والے قول  کوترجیح ہے ،تو ان  پٹھوں کے متعلق بھی مکروہ  تحریمی کو ترجیح ہونی چاہیے۔

2.             عربی کتب میں سات چیزوں میں کراہت تحریمی کی ترجیح بیان ہونے کے بعد دیگر چیزوں کو ان کے ساتھ لاحق کیا گیا ہے۔  تو یہ انداز ہی واضح کر رہا ہے کہ  یہ الحاق مکروہ تحریمی والی اشیاء کے ساتھ اسی وجہ سے ہے کہ یہ اضافہ شدہ اشیاء بھی مکروہ تحریمی ہیں۔ ورنہ اگر یہ اشیاء   مکروہ تنزیہی  ہوتیں  تو  الحاق کے وقت اس پر تنبیہ ضرور کی جاتی ۔

3.              نیز امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے بائیس   ممنوعہ اجزاء کی لسٹ میں  گردن کے دونوں پٹھوں کا بھی ذکرکیا ہے تو یہ بھی اس بات پر دلیل ہے کہ امام اہل سنت کے نزدیک ان کی کراہت، کراہتِ تحریمی ہے۔ بلکہ امام اہل سنت نے اپنے  تفصیلی فتوے  کے آخر میں اپنے ایک رسالے کا  تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان بائیس اجزاء کی تفصیل اس رسالے میں ہے۔ اور اس کا نام یہ بیان فرمایا ہے:

المنح الملیحۃ فیما نھی من اجزاء الذبیحۃ  

یہ رسالہ اگرچہ مفقود ہے ۔لیکن اس رسالے کے نام سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسالے میں بیان کردہ بائیس اجزاءِ حیوان ” منھی عنہ “ یعنی ممنوع و ناجائز ہیں۔

جواب:

طحطاوی کی عبارت سے اگرچہ یہ بات ثابت ہوسکتی ہے کہ  گردن کے پٹھوں کے متعلق بھی کراہتِ تحریمی کا  قول موجود ہے۔لیکن اس قول کی ترجیح یہاں سے ثابت نہیں ہوتی ۔ کیونکہ  کسی فقیہ نے یہ اصول ذکر نہیں کیا کہ ”چند اشیاء کو اکٹھا ذکر کر کے ان  کے متعلق دو اقوال  بیان کئے گئے  ہوں، اور پھر   ان میں سے بعض کے متعلق کسی قول کی ترجیح ثابت ہوجائے تو  دوسرے بعض کے متعلق بھی اسی ترجیح کو ثابت مانا جائے گا۔“ اگر یہ اصول ثابت ہو جائے پھر تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ طحطاوی کی عبارت  سے گردن کے پٹھوں کا بھی مکروہ تحریمی ہونا راجح ہوگیا۔ لیکن یہ اصول ہرگز ثابت نہیں ۔بلکہ اس کے برخلاف فقہاء کے کلام میں کئی نظائر مل جائیں گے جہاں فقہاء کرام ایسے مواقع پر بعض اشیاء میں ایک قول کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسرے بعض میں دوسرے قول کو۔ اور اس ترجیح کے لئے دلائلِ ترجیح کو ہی  بنیاد بنایا جاتا ہے ۔

مکروہ اشیاء کی لسٹ میں  چیز کا شمار ہونا ، مکروہ تحریمی  ہونے کی دلیل نہیں:

یونہی   ماہر فقیہ پر فقہاء کرام کا یہ عمومی انداز   مخفی نہیں   کہ فقہاء کرام مکروہ اشیاء و افعال بیان کرتے ہوئے بہت مرتبہ مکروہ تحریمی اور مکروہ تنزیہی ، دونوں طرح کی اشیاء کو اکٹھا بیان کر دیتے ہیں۔ یوں اکٹھا بیان کر دینا اس بات پر دلیل نہیں ہوتا کہ لسٹ میں موجود سب اشیاء مکروہ تحریمی ہیں۔ ایسے اطلاقات کے وقت شارحین و محشی حضرات علل و دلائل کی بنیاد پر مکروہ تحریمی و تنزیہی اشیاء کو جدا جدا کرتے ہیں۔ صاحب بحر الرائق ، علامہ شامی اور اعلی حضرت علیہم الرحمہ جیسے محققین نےفقہاء کرام  کے اس انداز پربڑی  تفصیل   سے گفتگو کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ایسے مقامات میں کراہت کو مطلق دیکھ کر مکروہ تحریمی ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ دلائل و علل کی طرف نظر کی جائے گی۔ چنانچہ چند عبارات ملاحظہ فرمائیں:

علامہ شامی رحمہ اللہ  ” مکروہ“کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” هو ضد المحبوب؛ قد يطلق على الحرام. . . . . . وعلى المكروه تحريما. . . . . . وعلى المكروه تنزيها.“ ملتقطا

 یعنی” مکروہ (ناپسندیدہ)“ محبوب(پسندیدہ) کی ضد ہے ۔ کبھی اس  لفظ کا اطلاق حرام پر ہوتا ہے ، کبھی مکروہ تحریمی پر اور کبھی مکروہ تنزیہی پر۔

مزید لکھتے ہیں :

وفي البحر: من مكروهات الصلاة المكروه في هذا الباب نوعان: أحدهما ما كره تحريما. . . . . . ثانيهما المكروه تنزيها، ومرجعه إلى ما تركه أولى، وكثيرا ما يطلقونه كما في شرح المنية، فحينئذ إذا ذكروا مكروها فلا بد من النظر في دليله، فإن كان نهيا ظنيا يحكم بكراهة التحريم إلا لصارف للنهي عن التحريم إلى الندب، فإن لم يكن الدليل نهيا بل كان مفيدا للترك الغير الجازم فهي تنزيهية. اهـ.“ملتقطا

 ترجمہ: بحر میں  مکروہات نماز کے باب میں ہے: اس باب میں مکروہ دو طرح کے ہیں: ایک جو مکروہ تحریمی  ہے۔۔ اور دوسرا جو مکروہ تنزیہی ہے۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس  کام کو نہ کرنا بہتر ہے۔  فقہا ء کرام اکثر”مکروہ “ مطلق بول دیتے  ہیں جیسا کہ شرح منیہ میں ہے۔  پس جب فقہا مکروہ مطلق  ذکر کریں تو اس کی دلیل میں غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ نہیِ ظنی ہو تو کراہت تحریمی کا حکم  ہوگا الا یہ کہ نہی  کو  تحریم سے ندب کی طرف پھیر نے کی کوئی دلیل ہو ۔ پس اگر نہی کی کوئی دلیل نہ ہو بلکہ دلیل،   غیر جزمی ترک کےلیے مفید ہو تو وہ نہی تنزیہی ہو گی۔(رد المحتار،مکروہات وضوء،  جلد1، صفحہ 131، دار الفکر، بیروت)

کچھ آگے چل کر  لکھتے ہیں :

  ليست الكراهة مصروفة إلى التحريم

 مطلقا  کراہت کو  مطلقا تحریم کی طرف نہیں پھیرا جائے گا۔(رد المحتار،مکروہات وضوء،  جلد1، صفحہ 132، دار الفکر، بیروت)

 امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ  لکھتے ہیں :

” ولا تغتر بالاطلاق فانھم ربما یطلقون ویریدون بہ ماھواعم من التنزیہ والتحریم وربما یطلقون ولا یریدون بہ الاکراھۃ تنزیہ کما لایخفی من عاشر نفائس عرائس کلما تھم،  وقد نصو اعلیہ فی غیر موضع۔۔الخ

 ترجمہ: کراہت کے مطلق چھوڑنے سے دھوکانہ کھانا کہ فقہاء بارہا اسے مطلق چھوڑتے ہیں اور اس سے مراد وہ معنی ہوتے ہیں جو کراہت تنزیہی اور تحریمی دونوں کو عام ہیں اور بارہا مطلق بولتے ہیں اور اس سے صرف کراہت تنزیہیہ مراد لیتے ہیں جیسا کہ اس پر پوشیدہ نہیں جس نے ان کےنفیس و خوبصورت ترین  کلمات کے ساتھ زندگی بسرکی ہے ۔۔الخ(فتاوی رضویہ(کفل الفقیہ الفاھم) ، جلد 17،صفحہ456تا459، رضا فاونڈیشن، لاہور)

 جب  یہ بات طےہےکہ  مکروہ  اشیاء کے شمار  میں کسی چیز کا ذکر ہو جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ مذکور چیز بھی مکروہ تحریمی ہے بلکہ دلیل و علت سے کراہتِ تحریمی کا ثبوت دینا ہوگا۔تو اب مکروہ  اجزاء کے شمار میں آجانا یا مکروہ تحریمی شے کے ساتھ لسٹ میں ذکر ہو جانا کسی چیز کے مکروہ تحریمی ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتا۔

ماکول اللحم جانور کے مکروہ اجزاء  کو شمار کرتے ہوئے عموما  فقہاء کرام  ان سات اجزاء کا ہی ذکر کرتے ہیں جو حدیث  میں مذکور ہوئے ہیں ۔  اس پر مزید بعض اجزاء کا اضافہ یا الحاق فقط  چند فقہاء کی طرف سے منقول ہوا ہے۔ خصوصا گردن کے پٹھوں کے متعلق توفقط دو عبارات ہیں۔ ایک بحر المحیط کی عبارت ہے جو جامع الرموز میں نقل ہوئی اور دوسری طحطاوی علی الدر کی عبارت ہے۔ان عبارات  کا تجزیہ اوپر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں کہ بحر المحیط و جامع الرموز کی عبارت میں تنزیہی کی صراحت ہے ۔ اور طحطاوی علی الدر کی عبارت میں دو اقوال بیان کر کے بلا ترجیح بات چھوڑ دی گئی ہے۔لہذا یہ کوئی  ایسا اضافہ یا الحاق نہیں ہے جو کراہت تحریمی پر دلالت کرنے والا ہو۔ اس طرح کا اضافہ مطلق کراہت کے پیشِ نظر بھی ہوتا ہے ۔

اور حکم میں الحاق  کا انداز  وہ  ہے جو امام اہل سنت علیہ الرحمۃ  نے دُبر ، اوجھڑی ،اور آنتوں  کا حکم بیان کرتے ہوئے اختیار فرمایا ۔ چنانچہ لکھا: اہل علم پر مستتر نہیں کہ استدلال بالفحوٰی یا اجرائے علت منصوصہ خاصہ مجتہد نہیں،

 کما نص علیہ العلامۃ الطحطاوی تبعا لمن تقدمہ من الاعلام

اور یہاں خود امام مذہب رضی اللہ تعالی عنہ نے اشیاء ستہ کی علت کراہت پر نص فرمایا کہ خباثت ہے۔ اب فقیر متوکلا علی اللہ تعالٰی کوئی محل شک نہیں جانتا کہ دُبر یعنی پاخانے کا مقام، کرش یعنی اوجھڑی ،امعاء یعنی آنتیں بھی اس حکم کراہت میں داخل ہیں، بیشک دُبرفرج وذکر سے اور کرکش وامعاء مثانہ سے اگر خباثت میں زائد نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں، فرج وذکر اگر گزر گاہ بول ومنی ہیں دُبرگزر گاہ سرگین ہے، مثانہ اگر معدن بول ہے شکنبہ و رودہ مخزن فرث ہے اب چاہے اسے دلالۃ النص سمجھئے خواہ اجرائے علت منصوصہ (فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ238 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

امام اہل سنت  امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کے کلام کی وضاحت :

جہاں تک  امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ کے فتاوی کی بات ہے تو امام اہل سنت نے اپنے تفصیلی فتوے میں جب بائیس اجزاء کی کراہت بیان کی تو وہاں سوال یوں تھا: ” بدن حیوان ماکول اللحم میں کیا کیا چیزیں مکروہ ہیں؟ “ یعنی سوال میں یہ نہیں پوچھا گیا تھا کہ کونسی چیزیں کھانا  ناجائز یا مکروہ تحریمی ہیں ۔ بلکہ مطلقا یہ پوچھا گیا کہ کونسی چیزیں مکروہ ہیں؟ یہ سوال ایسا ہے کہ اس کے جواب میں مکروہ تحریمی او رمکروہ تنزیہی دونوں طرح کی چیزوں کو شمار کیا جائے گا۔

اوراس سوال کے جواب میں  امام اہل سنت کا جو کلام  ہے اس میں کسی جگہ بھی امام اہل سنت نے  صراحتاً یا اشارتاً  ایسی بات نہیں  کی جس سے یہ واضح ہو جائے کہ یہ تمام بائیس اجزاء مکروہ تحریمی  ہیں۔بلکہ جواب کا انداز اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اس فتوے میں مذکور تمام اجزاء مکروہ تحریمی یا حرام کے درجے کے نہیں  بلکہ مکروہ تنزیہی اجزاء کا بیان بھی اس میں ہے۔  کیونکہ پہلے سات اجزاء کا ذکر کیا۔ ان میں سے خون کے علاوہ بقیہ چھے چیزوں کی کراہت ذکر کر کے پھر اس کراہت کے تحریمی ہونے کے دلائل دیئے ۔ اور اس کے بعد پھر پانچ ان چیزوں کا ذکر کیا جو علماء نے اضافہ کی تھیں۔ لیکن ان میں سے کسی کے متعلق بھی مکروہ تحریمی یا حرام ہونے کی صراحت نہیں فرمائی، نہ کوئی ایسی علت و دلیل کی طرف اشارہ کیا جو کراہت تحریمی پر دلالت کرے۔ حالانکہ آگے آنے والے کئی اجزاء کے متعلق بھی ناجائز ، حرام یا مکروہ تحریمی ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔ تو یوں درمیان میں چند اجزاء کا کراہتِ تحریمی کی صراحت کے بغیر  بیان کرنا ، یہ انداز اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ ان میں سے بعض اجزاء مکروہ تنزیہی درجہ کے ہو سکتے ہیں۔

پورے فتوے سے ملتقط شدہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

سات چیزیں تو حدیثوں میں شمار کی گئیں۔۔۔ یہ تو سات  بہت کتب مذہب، متون وشروح وفتاوٰی میں مصرح اور علامہ قاضی بدیع خوارزمی صاحب غنیہ الفقہاء وعلامہ شمس الدین محمد قہستانی شارح نقایہ وعلامہ محمد سیدی احمد مصری محشی درمختار وغیرہم علماء نے دو چیزیں اور زیادہ فرمائیں(۸)۔۔۔۔ (۹)۔۔۔  اور فاضلین اخیرین وغیرہما نے تین اور بڑھائیں(۱۰)۔۔۔ (۱۱)۔۔۔ (۱۲)۔۔۔ علماء کی ان زیادت سے ظاہر ہوگیا کہ سات میں حصر مقصود نہ تھا۔ ۔۔۔۔جگر وطحال وگوشت کے خون گنے اور (۱۳) خون قلب چھوڑ گئے حالانکہ وہ قطعا ان کے مثل ہے۔۔۔۔ (۱۴) مرہ ۔۔۔ جسے صفرا کہتے ہیں۔۔۔بہر حال کھانا اس کا بیشک ناجائز ہے۔۔۔۔(۱۵)  بلغم ۔۔۔ کا کھانا بھی یقینا ناجائز ا۔۔لخ،۔“(فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ234تا238 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اور اس بات پر ایک اور قرینہ واضحہ یہ بھی ہے کہ امام اہل سنت نے اپنے دوسرے  مختصر فتوے میں جب ان بائیس اجزاء کی لسٹ بیان کی تو اس کے شروع میں لکھا :

حلال جانور کے سب اجزاء حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں ۔۔۔الخ “

اگر امام اہل سنت کے نزدیک یہ سب اجزاء   کم از کم  ناجائز(مکروہ تحریمی)  درجے کے تھے تو پھر  شروع میں  حرام یا ممنوع یا مکروہ  کہنے کی حاجت نہ تھی۔ یہ عبارت اس طرف واضح  اشارہ کرتی ہے کہ  ان اجزاء میں کچھ حرام ہیں، کچھ ممنوع یعنی مکروہ تحریمی ہیں  اور کچھ اس سے ہلکے درجے کی کراہت رکھنے والے ہیں یعنی مکروہ تنزیہی۔

کیامنھی عنہ  اشیاء  کی لسٹ میں شمار ہونا ، مکروہ تحریمی ہونے کی دلیل ہے؟

” منھی عنہ “  کا مطلب ہوتا ہے جس چیز سے منع کیا گیا ہو۔  اور فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق  یہ لفظ ، فقط ناجائز  امور کے لئے خاص نہیں ہے۔ بلکہ ایسے امور جن  کے متعلق  کراہتِ تنزیہی کے درجے کی” نہی “ آئی ہو اسے بھی  ” منھی عنہ “ کہا جا سکتا ہے۔ لہذا یہ ایک ایسا لفظ ہے جو حرام فعل پر بھی بولا جا سکتا ہے، مکروہ تحریمی پر بھی بولا جا سکتا ہے   اور مکروہ تنزیہی پر بھی بولا جا سکتا ہے۔ گویا یہ اردو میں استعمال ہونے والے لفظ ”ممنوع “ کی طرح ہے ۔ جس کا اطلاق حرام ، مکروہ تحریمی او ر مکروہ تنزیہی تینوں پر ہوتا ہے۔

علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  نے ایک امر کے مکروہ تنزیہی ہونے پر دلائل دیتے ہوئے یہ بات  بڑے واضح انداز سے لکھی ہے کہ  کسی امر کا منہیات کے ضمن میں آنا اس کے  مکروہ تحریمی ہونے کی دلیل نہیں کیونکہ مکروہ تنزیہی بھی منہیات میں سے  ہے۔ چنانچہ ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : 

” ولا ينافيه عده من المنهيات كما عد منها لطم الوجه بالماء، فإن المكروه تنزيها منهي عنه “

یعنی  اسے منہی عنہ  امور میں شمار کرنا اس کے مکروہ تنزیہی ہونے کے  مخالف نہیں۔ جیسے دوران وضو چہرے پر پانی مارنے کو  بھی منہی عنہ  امورمیں شمار کیا گیا ہے (حالانکہ یہ مکروہ تنزیہی ہے۔) اور  ”مکروہ تنزیہی “  منہی عنہ (ممنوع) ہی ہے۔ (رد المحتار، جلد1، صفحہ 132، دار الفکر، بیروت)

امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ علامہ شامی کے مذکورہ بالا کلام کی تائید کرتے ہوئے اور اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے  جد الممتار میں لکھتے ہیں :

” (قوله: فإنّ المكروه تنزيهاً منهي عنه:)فالنهي إن كان مصروفاً عن طلب الترك الجازم أفاد كراهة التنزيه، وإلاّ فإن كان قطعياً أفاد التحريم وإلاّ فكراهة التحريم، فالكلّ منهي عنه وإن لم يكن الممتنع شرعاً إلاّ الحرام والمكروه التحريمي، فاحفظه فإنّه نافع مهم “

(علامہ شامی نے یہ فرمایا کہ مکروہ تنزیہی بھی منہی عنہ ہے)لہذا  اگر وہاں آنے والی ”نہی“ جزمی ترک کے مطالبے سے کسی اور معنی کی طرف پھیر دی گئی ہے تو یہ ”نہی“ کراہت تنزیہی کا فائدہ دے گی۔ ورنہ اگر وہ قطعی ہو تو یہ ” تحریم“ کا فائدہ دے گی۔  اور اگر قطعی نہ ہو تو ”کراہت تحریمی“ کو ظاہر کرے گی۔ پس ان میں سے  ہر قسم  ”منہی عنہ“ ہے ۔اگرچہ شرعی طور پر حرام اور مکروہ تحریمی ہی ممنوع شمار کیے جاتے ہیں۔ اسے یاد رکھو کیونکہ یہ نافع اور اہم بات ہے۔(جد الممتار، مقولہ نمبر 94)

لہذا علامہ شامی اور امام اہل سنت رحھم اللہ کے مذکورہ بالا افادات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسالے کے نام

المنح الملیحۃ فیما نھی من اجزاء الذبیحۃ  

  کو بنیاد بنا  کرجو یہ دعوی کیا گیا تھا کہ یہ تمام بائیس اجزاءِ حیوان  کم از کم ناجائز ( مکروہ تحریمی) کے  درجے کے ہیں ، یہ دعوی درست نہیں ۔ کیونکہ رسالے میں ”منہی عنہ“ اجزاء کا  بیان ہے ۔ اور منہی عنہ   کے ضمن میں جس طرح حرام یا مکروہ تحریمی اجزاء کو بیان کیا جا سکتا ہے اسی طرح  ان  اجزاء  کو بھی بیان کیا  جا سکتا ہے  جو ”مکروہ تنزیہی“ درجے کے ہوں۔  گویا یہ تمام وہ اجزاء ہیں جن سے منع کیا گیا ہے لیکن ضروری نہیں کہ یہ ممانعت مکروہ تحریمی یا حرام درجے کی ہو۔

خلاصہ :

خلاصہ یہ کہ  عباراتِ فقہاء کرام سے فقط اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ” گردن کے پٹھے “ مکروہ ہیں۔ اور کراہت تحریمی یا تنزیہی  میں سے کسی ایک کے راجح ہونے کی صراحت  نہیں ہے۔

دوسری طرف   فقہاء کرام کا مطلقا یہ کہنا کہ ”جانور کے پٹھے حلال ہیں۔ “ اور مذبوح جانور کے اجزاء میں اصل حلت کا ہونا، اور کراہتِ تحریمی کی علت نہ ہونا،  اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ گردن کے پٹھے بھی حلال ہوں ۔ اور حلت کے ساتھ کراہتِ تنزیہی جمع ہو سکتی ہے لیکن تحریمی نہیں ۔ اور گردن کے پٹھوں کے متعلق کراہت  تنزیہی والا قول لیا جائے تو اصول سے موافقت ہو جاتی ہے۔لہذا یہاں کراہتِ تنزیہی کا قول ہی راجح شمار ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:محمد ساجد  عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:NRL-0181

تاریخ اجراء:21 رجب المرجب    1446 ھ/22 جنوری    2025 ء