
مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-2035
تاریخ اجراء:12جمادی الاولٰی1446ھ/15نومبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
صبح کے وقت بھیک مانگنے والی فقیرنیاں گھروں پر آتی ہیں اور ایک کے بعد ایک آتی رہتی ہے، اس طریقے سے جو مانگنے والی آتی ہیں کیا ان کو خالی ہاتھ لوٹا سکتے ہیں یا پھر کچھ نہ کچھ دینا لازم ہی ہے؟ منع کردیں، تو اس میں گناہ ہوگا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
گھر پر جو فقراء مانگنے آتے ہیں ، یہ عموما ً پیشہ ور ہوتے ہیں کہ بقدرِ حاجت کمانے پر قادر ہونے کےباوجود مانگ کر کھانے کے عادی ہیں ایسے پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک دینا جائز نہیں ، لہٰذا اگر معلوم ہو کہ مانگنے والا پیشہ ور ہے تو اسے بھیک دے کر گناہوں بھری عادت پر ان کی مدد نہ کی جائےاور نہ ہی خود گنہگار ہواجائے۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جو اپنی ضروریات شرعیہ کے لائق مال رکھتا ہے یا اس کے کسب پر قادر ہے اُسے سوال حرام ہے اور جو اس مال سے آگاہ ہو اُسے دینا حرام، اور لینے اور دینے والا دونوں گنہگار و مبتلائے آثام۔ صحاح میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فر ماتے ہیں: ’’لاتحل الصدقۃ لغنی ولذی مرۃ سوی رواہ الائمۃ احمد والدارمی والاربعۃ عن ابی ھریرۃ رضی ﷲتعالیٰ عنہ“ صدقہ حلال نہیں ہے کسی غنی کے لیے، نہ کسی تندرست کے لیے (اسے امام احمد، دارمی اور چاروں ائمہ نے حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔“(فتاوی رضویہ ،جلد 10،صفحہ306،307،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم