Halal Janwar Ke Gurde Khane Ka Hukum

 

حلال جانور کے گُردے کھاناکیسا ؟ گُردے کے اندر والی نالی نہیں نکالی تو کیا حکم ہے؟

مجیب: محمد ساجد عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمدھاشم خان عطاری

فتوی نمبر: JTL-1856

تاریخ اجراء: 30 محرم الحرام    1446 ھ/06 اگست    2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع  متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حلال جانور جیسے بکری اور گائے وغیرہ کے گُردے کھانے کا کیا حکم ہے؟کہا جاتا ہے کہ گردے کے اندر ایک پیشاب کی نالی ہوتی ہے ، اگر اس کو الگ کر دیا جائے تو گردہ پاک ہو جاتا ہے ورنہ نہیں۔ کیا یہ واقعی پیشاب کی نالی ہوتی ہے  ؟ اگر یہ  پیشاب کی نالی ہے ، تو اسے  الگ کیے بغیر اگر گردہ  کھانے میں  پکا دیا تو کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حلال جانور جیسے بکری اور گائے وغیرہ کو جب شرعی طریقے سے ذبح کر لیا جائے ، تو اس کے بعد اس کے گردے کھانا ، جائز ہے ، لیکن ناپسندیدہ و مکروہ (تنزیہی) ہے ، کیونکہ  گردوں کا  پیشاب سے قریبی تعلق ہوتا ہے۔اسی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  اپنی اعلی ، کامل و نفیس طبیعت کی وجہ سے اسے پسند نہیں فرماتے تھے۔

                                                                                                                                                                                 پہلے  آپ اس کے متعلق  حدیث اور علماء کا کلام ملاحظہ فرمائیں۔ پھر سوال کے تناظر میں  ہم اس کی  مزید کچھ تفصیل بیان کریں گے۔

   چنانچہ کنز العمال میں ہے:’’کان یکرہ الکلیتین لمکانھمامن البولترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم گردے کھانے کوناپسندفرماتے تھے، کیونکہ وہ پیشاب کے قریب ہوتے ہیں۔(کنزالعمال،کتا ب الشمائل، جلد07، صفحہ41،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   علامہ مناوی اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں :(لمكانهما من البول) أي لقربهما منه فتعافهما النفس ومع ذلك يحل أكلهما “یعنی ان کے پیشاب کے قریب ہونے کی وجہ سے طبیعت انہیں ناپسند کرتی ہے۔ بہر حال اس کے باوجود ان کا کھانا حلال ہے۔(فيض القدير، جلد5، صفحہ 245، المكتبة التجارية الكبرى ، مصر)

   مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:’’گردے حضورکوناپسندتھے، کیونکہ ان کاتعلق پیشاب سے ہے۔‘‘(مرآۃالمناجیح،جلد01،صفحہ254،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   ملفوظات اعلی حضرت میں ہے: سوال: ’’ گردے کھانے کا کیا حکم ہے ؟‘‘تو آپ نے  جوابا ً ارشاد فرمایا :’’جائز ہے، مگرحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پسند نہ فرمایا،اس وجہ سے کہ پیشاب ان میں سے ہو کر مثانہ میں جاتاہے۔“(ملفوظات اعلی حضرت ،حصہ 4،صفحہ460،461، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   گردوں سے متعلق  مذکورہ بالا حدیث اور علماء کے کلام سے اس کا مکروہ تنزیہی ہونا واضح ہوجاتا ہے،  کیونکہ علمائے کرام نے ناپسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو جائز بھی کہا ہے  اور یہ انداز کراہتِ تنزیہی کے بیان کے وقت ہی ہوتا ہے۔

   اب یہاں ہم   تین اُمور پر تفصیلی  گفتگو کریں گے:(1) آیا گردے کے اندر پیشاب کی نالی ہوتی ہے یا نہیں ؟(2) اگر ہوتی ہے تو کیا اس نالی کو جدا کیے بغیر گردہ پاک ہوگا یا نہیں ؟(3) کیا گردہ  خبیث  اشیاء میں شمار کیا جا سکتا ہے ؟

1.               جہاں  تک اس بات کا تعلق ہے کہ گردے کے اندر  پیشاپ کی نالی ہوتی ہے یا نہیں؟تو اس  کا جواب سمجھنے  کے لیے  گردے کی  اندرونی ساخت (Structure)و عمل سمجھنا مفید ہوگا ۔ چنانچہ گردوں کا  بنیادی کام خون  سے اضافی پانی اور فاضل مادے جدا کر کے خون صاف کرنا ہوتا ہے۔ تمام  جسم کا خون ایک  شریان  کے ذریعے  گردے میں آتا  ہے۔اور پھر گردے اس خون کو صاف کر کے اضافی پانی اور  فاضل و غیر ضروری مادے خون سے نکال کر جدا کرتے ہیں۔ صاف شدہ خون ایک دوسری  خون کی نالی کے ذریعے جسم میں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ اور اضافی پانی اور  فاضل و غیر ضروری مادہ جو خون سے جدا ہوتا ہے ،  یہ گردوں سے متصل ایک نالی کے ذریعے نکل کر  مثانے میں  چلا جاتا ہے۔ یہی بالآخر پیشاب بنتا  ہے۔گردے کے اندر خون کو صاف کرنے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں باریک چھلنیاں ہوتی ہیں جنہیں نیفرون (Nephron)کہا جاتا ہے ۔خون صاف ہونے کا عمل پورے گردے میں ہو رہا ہوتا ہے ۔یوں  اضافی پانی اور فاضل مادے وغیرہ گردے کے ہر جانب سےنکل کر باریک باریک  راستوں سے ہوتے ہوئے  گردے میں موجودقدرے کھلے حصے میں پہنچتا ہے، جسے  پیلوس (Pelvis)کہاجاتا ہے۔یہاں سے وہ گردے سے باہر  اس نالی میں  نکلتا ہے جو گردے کے ساتھ باہر کی جانب  متصل ہوتی ہے اوراس مواد کو  مثانے تک لے جاتی ہے۔( یہ معلومات وکی پیڈیا کےدرج ذیل  لنک و دیگر ویب سائٹس سے لی گئی ہیں ۔)

(https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D8%B1%D8%AF%DB%81)

   گردے کی اندرونی ساخت جاننے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گردے کے اندر پیشاب کی کوئی نالی نہیں ہوتی بلکہ گردے کے اندر ہر جانب سے فاضل مواد باریک راستوں سے ہوتے ہوئے ایک قدرے کھلے حصے (پیلوس) میں پہنچتا ہے ۔ سائل نے شاید اسی حصے کو پیشاب کی نالی سمجھا ہے، حالانکہ یہ نالی نہیں بلکہ گردے کا اندرونی ایک حصہ ہے۔ ہاں اس حصے سے متصل گردے کے بیرونی جانب وہ نالی ہوتی ہے جو اس غیر ضروری مواد کو مثانے تک لے جاتی ہے۔

2.               دوسری بات   یہ  کہ  اسے گردے کا اندرونی حصہ کہیں  یا بقول سائل ” نالی“ ، بہرصورت ذبح شدہ جانور کے اس حصے کو ناپاک قرار نہیں دیا جا سکتا ، کیونکہ  جانور کے ذبح  ہونے  اور دمِ مسفوح (بہنے والے ) کے نکل جانے کے بعد گردہ بلکہ جانور کا پورا گوشت پاک ہو جاتا ہے۔  حتی کہ  خود مثانہ جو معدنِ بول  ہے یعنی وہاں پیشاب ٹھہرتا ہے ، وہ بھی اپنی ذات کے اعتبار سے  پاک شمار ہوتا ہے(اگرچہ اس میں  موجود پیشاب ناپاک ہوتا ہے لیکن جب تک یہ مثانے کے اندر ہے تب تک اس پر ناپاکی کا حکم نہیں لگتا۔)جب مثانہ اپنی ذات کے اعتبار سے پاک شمار ہوتا ہے ، توگردے کا اندرونی  حصہ ” پیلوس “بدرجہ اولیٰ پاک شمار ہوگا کہ یہاں تو یہ فاضل مواد ٹھہرتا بھی نہیں ہے۔

   ذبح سے گوشت و کھال پاک ہو جاتی ہے اس کے متعلق ہدایہ میں ہے: ”ما يطهر جلده بالدباغ يطهر بالذكاة؛ لأنها تعمل عمل الدباغ في إزالة الرطوبات النجسة، وكذلك يطهر لحمه وهو الصحيح “جس جانور کی کھال  دباغت سے پاک ہو جاتی ہے، وہ ذبح کرنے سے بھی پاک ہو جاتی ہے کیونکہ عملِ  ذبح بھی دباغت کی طرح ایسا عمل ہے جس سے  نجس رطوبات دور ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح اس کا گوشت بھی پاک ہو جاتا ہے اور یہی صحیح ہے۔(ھدایہ، جلد 1، صفحہ 23، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   بنایہ میں ہے: ” وفي " البدائع ": الذكاة تطهر المذكى بجميع أجزائه إلا الدم المسفوح “اور "البدائع" میں ہے: ذبح کرنے سے ذبیحہ اپنے تمام اجزاء سمیت پاک ہو جاتا ہے سوائے بہنے والے خون کے۔(البناية ، جلد1، صفحہ 423، ، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   امام اہل سنت سیدی اعلی  حضرت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :” مذبوح جانور ماکول اللحم کا پھکنا [يعنی مثانہ] بالاتفاق اپنی ذات میں تو کوئی نجاست نہیں رکھتا فی الدرالمختار کل اھاب ومثلہ المثانۃ والکرش دبغ طھر وفی التنویر وماطھر بہ طھر بذ کا ۃ۔۔۔۔ پھکنا[يعنی مثانہ] معدنِ بول ہے اور نجاست جب تک اپنے معدن میں ہو اُسے حکمِ نجاست نہیں دیا جاتا ۔۔۔۔ الخ“(فتاوی رضویہ،جلد 03، صفحہ267 ، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   لہٰذا ذبح شرعی ہونے کے بعد دمِ مسفوح نکلتے ہی ”گردہ “اپنے تمام اجزاء سمیت  پاک ہوتا ہے اگرچہ اس کے کسی حصے کو دھویا بھی نہ گیا ہو۔

3.               اور  خون سے جدا ہونے والے اس فاضل مواد  کی گزرگاہ ہونے کی  وجہ سے گردے کے اس حصے (پیلوس) کو خبیث اشیاء میں بھی شمار  نہیں کیا جا سکتا ،  کیونکہ   اگرچہ یہ فاضل مواد ہی  آگے چل  کر پیشاب بنتا ہے ، لیکن  یہ بات ہرگز  ثابت  نہیں ہے کہ یہ مرحلہ جو  خون سے زائد پانی و فاضل مواد جدا ہونے کا  ابتدائی مرحلہ ہے، اس مرحلہ میں  اس کی وہی کیفیت ہوتی ہے ، جو پیشاب کی ہوتی ہے۔ بلکہ ظاہر یہی ہے  یہ کیفیت اس وقت بنتی ہے جب یہ مثانے میں جمع ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے مثانے کو طبی و فقہی طور پر معدنِ بول (پیشاب کے ٹھہرنے کی جگہ)کہا جاتا ہے ، لیکن گردے کو معدنِ  بول نہیں کہا جاتا، لہٰذا گندگی و گھن کے اعتبار سے اس کا وہ درجہ نہیں  جو مثانے کا ہے۔ جب ایسا ہے تو گردے کو یا اس کے کسی جزو کو خبیث اشیاء میں سے شمار  نہیں کیا جائے گا ۔

   نیزاس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ  گردہ ، خون سے جس فاضل مواد کو جدا کرتا ہے یہ گردےکے فقط اس حصے (پیلوس) میں سے ہی نہیں گزرتا ، بلکہ  گردے کےاندر   لاکھوں کی تعداد میں نیفرون پھیلے ہونے کی وجہ سے خون سے فاضل مادوں کو جدا کرنے کا عمل سارے گردے میں ہو رہا ہوتا ہے اور یہ فاضل مواد   گردے کی ہر جانب سے چھوٹے چھوٹے رستوں سے ہوتا ہوا آ رہا ہوتا ہے۔ اگر اس فاضل مواد کے گزرنے کی وجہ سے پیلوس کوخبیث مانا جائے تو پھر تو سارے گردے کو ہی خبیث ماننا پڑے گا ، جبکہ فقہائے کرام کی مذکورہ بالا جواز کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ گردہ خبیث اشیاء میں سے نہیں ہے، لہٰذا گردے کے کسی حصے کو مثانے کی طرح خبیث نہیں مانا جائےگا۔ اور اس ابتدائی مرحلے میں اس  فاضل مواد کا حکم پیشاب جیسا نہیں  ہوگا،البتہ چونکہ  اسی  مواد نے آگے چل کر پیشاب بننا ہے اور یہ  گردے  کے اندرسے بن کر نکل رہا ہے اس  لئے اس قریبی تعلق کی وجہ سے اس میں ادنی کراہت مانی جائے گی، جو کراہتِ تنزیہی ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم