
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
فقہ حنفی میں حلال جانوروں کی آنتیں کھانے کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عند الاحناف حلال جانور کی آنتیں کھانا مکروہ تحریمی ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ اوجھڑی کی طرح آنتیں بھی جانور کی نجاست و گندگی جمع ہونے کی جگہ ہے، لہذا جس طرح حدیث پاک میں مثانے کو مکروہ قرار دیا گیا کہ یہ پیشاپ جیسی گندی چیز جمع ہونے کی جگہ ہے، اسی علت کی بنیاد پر آنتیں بھی مکروہ ہوگی کہ یہ بھی گندگی و نجاست جمع ہونے کی جگہ ہے۔ اور ایسی چیزخبیث ہوتی ہے کہ نفیس طبیعت اس سے گھن کھاتی ہے اورخبیث چیزوں کی حرمت قرآن پاک سے ثابت ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے:
(یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ)
ترجمہ: اوران پرخبیث چیزوں کوحرام فرمائے گا۔ (سورۃ الاعراف، پ 09، آیت 157)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "اہل علم پر مستتر نہیں کہ استدلال بالفحوٰی یا اجرائے علت منصوصہ خاصہ مجتہد نہیں،
کما نص علیہ العلامۃ الطحطاوی تبعا لمن تقدمہ من الاعلام
(جیسا کہ اس پر علامہ طحطاوی نے اپنے گزرے ہوئے بزرگوں کی اتباع میں نص کی ہے۔) اور یہاں خود امام مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اشیاء ستہ کی علت کراہت پر نص فرمایا کہ خباثت ہے، اب فقیر متوکلا علی اللہ تعالیٰ کوئی محل شک نہیں جانتا کہ دُبر یعنی پاخانے کا مقام، کرش یعنی اوجھڑی، امعاء یعنی آنتیں بھی اس حکم کراہت میں داخل ہیں، بیشک دُبرفرج وذکر سے اور کرش وامعاء مثانہ سے اگر خباثت میں زائد نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں، فرج وذکر اگر گزر گاہ بول ومنی ہیں دُبرگزر گاہ سرگین ہے، مثانہ اگر معدن بول ہے شکنبہ و رودہ مخزن فرث ہیں، اب چاہے اسے دلالۃ النص سمجھئے خواہ اجرائے علت منصوصہ، الحمدللہ بعد اس کے فقیر نے ینابیع سے تصریح پائی، کہ امام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دبر کی کراہت پر تنصیص فرمائی۔" (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 238 ، 239، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3954
تاریخ اجراء: 26 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 23 جون 2025 ء