
مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری
فتوی نمبر:WAT-3529
تاریخ اجراء:01شعبان المعظم1446ھ/31جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کسی نے کوئی کھانے پینے جیسے آئسکریم وغیرہ کی دکان کھولی اور ہمیں معلوم ہو کہ جس نے دکان بنائی، حرام مال سے بنائی ہے، تو کیا وہاں سے چیز لے کرکھا سکتے ہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اس دکان سے آئسکریم وغیرہ خرید کر کھانا شرعی طور پر جائز و حلال ہے کہ اول تواس نے جس مال سے دوکان میں مال ڈالا، خاص اس کے متعلق حرام کاعلم ہونابہت دشوارہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتاہے کہ اس کاپیشہ حرام کاہو لیکن پیشہ حرام ہونے سے خاص اس مال کاحرام ہونایقینی نہیں ہوسکتا، جس سے اس نے دوکان میں مال ڈالاہے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ کہیں سے قرض لایاہو۔
اور اگربالفرض وہ مال(جس سے اس نے دوکان میں مال ڈالا) خالص حرام(مثل غصب، رشوت، چوری، حرام کام کی اجرت وغیرہ)بھی ہو، تب بھی اُس سے خریدی گئی چیزدوصورتوں میں حرام ہوتی ہے:
(1)ایک یہ کہ روپیہ پہلے دے دیاکہ اس کایہ مال دے دے۔
(2)اور دوسرایہ کہ روپیہ توپہلے نہ دیامگرعقدونقددونوں اس روپیہ پرجمع کئے یعنی خاص حرام روپیہ دکھا کر کہا کہ اس روپے کے بدلے فلاں چیز دے دو اور جو روپے دکھائے تھے،وہی حرام روپے قیمت میں ادا کر دئیے۔
اوراگران میں سے کوئی بھی صورت نہ پائی گئی تواس کے بدلے خریدی گئی چیزکوحرام نہیں کہہ سکتے۔اورخریداری میں جو عام طریقہ اپنایا جاتاہے، اس میں یہ دوصورتیں نہیں پائی جاتیں، پس جب تک ان صورتوں میں سے کسی ایک کے پائے جانے کاعلم نہ ہو، اس وقت تک خریدی گئی چیزکوحرام نہیں کہہ سکتے۔
امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں :" اورحرام مال مثل زرغصب ورشوت وسرقہ واجرت معاصی وغیرہ سے جو چیز خریدی جائے اس کی چند صورتیں ہیں: ایک مثلا غلا فروش کے سامنے روپیہ ڈال دیا کہ اس کے گیہوں دے دے، اس نے دے دئے یا بزاز کو روپیہ پہلے دے دیا کہ اس کا کپڑا دے دے، یہ گیہوں اورکپڑا حرام ہے۔ دوسرے یہ کہ روپیہ پہلے تو نہ دیا مگرعقد ونقد دونوں اس روپیہ پر جمع کئے، یعنی خاص اس حرام روپیہ کی تعیین سے اس کے عوض خریدا، اوریہی روپیہ قیمت میں ادا کیا، مثلا غلا فروش کو یہ حرام روپیہ دکھا کر کہا اس روپیہ کے گیہوں دے دے، اس نے دے دئے اس نے یہی روپیہ اسے دے دیا، اس صورت میں یہ گیہوں حرام ہے۔تیسرے یہ کہ نہ روپیہ پہلے سے دیا نہ اس پر عقدونقد جمع کئے، اس کی پھر تین شکلیں ہیں:
اول یہ کہ اس سے کہا ایک روپیہ کے گیہوں دے دے، کچھ اس روپیہ کی تخصیص نہ کی کہ اس کے بدلے دے، جب اس نے تول دئے اس نے زرثمن میں جو بعوض گندم اس کے ذمہ واجب ہوا تھا، یہ حرام روپیہ دے دیا، اس صورت میں نقد تو زر حرام کا ہوا، مگر عقد کسی خاص روپیہ پر نہ ہوا، دوم یہ کہ پہلے اسے حلال روپیہ دکھاکر اس کے بدلے گیہوں لئے، جب اس نے دے دئے اس نے وہ حلال روپیہ اٹھالیا اور قیمت میں زرحرام دے دیا، اس صورت میں عقد زرحلال پر ہوا، اور نقد حرام کا۔سوم یہ کہ اس کا عکس یعنی پہلے اسے حرام روپیہ دکھا کر کہا، اس کے گیہوں دے، پھر دیتے وقت حلال روپیہ دیا، اس صور ت میں عقد زرحرام پرہوا اور نقد حلال کا۔
بہرحال تینوں صورتوں میں عقد ونقد دونوں زرحرام پر جمع نہ ہوئے نہ پہلے سے زرحرام دے کر چیز خریدی کہ حقیقۃً یہ بھی اجتماع عقد ونقد کی صورت تھی، ان تینوں صورتوں میں بھی بڑا قوی مذہب ہمارے ائمہ کا یہ ہے کہ وہ گیہوں حرام ہوں گے، مگر زمانہ کاحال دیکھ کر ائمہ متاخرین نے امام کرخی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول اختیار کیا کہ ان شکلوں میں وہ چیز حرام نہ ہوگی اور اس کا کھانا کھلانا، پہننا پہنانا، تصرف میں لانا جائز ہوگا، اس آسان فتوے کی بناء پر ان حرام روپیہ والوں کے یہاں کاکھانا یا پان وغیرہ کھانا پینا مسلمانوں کو روا ہے کہ وجہ حرام سے ان لوگوں کو بعینہٖ یہ کھانا نہیں آتا۔ بلکہ روپیہ آتا ہے۔ یہ اس کے عوض اشیاء خرید کر کھانا تیار کراتے ہیں اور خریداری میں عام طریقہ شائعہ کے طورپر عقد ونقد کا اجتماع نہیں ہوتا۔ بلکہ غالب بیع وشراء صورت ثالثہ کی شکل اول پر واقع ہوتی ہیں۔"(فتاوی رضویہ،ج19،ص646،647،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃایک سوال کےجواب میں حرام کمائی والے کے پاس حلال مال ہونےکی مختلف احتمالی صورتوں کو بیان کرتے ہوئےفرماتےہیں:’’اوریہ سمجھ لینا کہ اس کا پیشہ حرام ہے، لہٰذایہ مال حرام ہی ہوگا، غلط ہےکہ ممکن ہےکہیں سےقرض لایا ہو، کیا جو لوگ حرام پیشےکرتےہیں،وہ قرض نہیں لیتے؟ یا انہیں کوئی قرض نہیں دیتا؟ یا ممکن ہےجوچیزاُس نےاس طرح پرخریدی تھی کہ عقدونقد مالِ حرام پرمجتمع نہ تھے، اُسےبیچ کریہ روپیہ لایا ہو اور ایسا بھی ہوتاہےکہ حرام پیشےوالے،بعض اُن میں کبھی کوئی جائزپیشہ بھی کرلیتے ہیں، اس جائز سےیہ حاصل ہواہو،غرض جب تک اس خاص کی نسبت حرمت کاعلم نہ ہو،لیناجائزہے۔‘‘(فتاوی امجدیہ، ج3، ص158، مکتبہ رضویہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم