
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ حرام مغز کھانے کا کیا حکم ہے ؟ اگر یہ مکروہ ہے تو کیا مکروہ تنزیہی ہے یا مکروہ تحریمی؟ بہر دو صورت اس کے دلائل بیان فرما دیں۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
”نخاع الصلب“ یعنی ریڑھ کی ہڈی میں موجود سفید ڈورے کی طرح کا گودا جسےاردومیں ”حرام مغز“ کہتے ہیں ، اس کا کھانا مکروہ (تنزیہی) ناپسندیدہ ہے۔ لہذاگوشت پکاتے ہوئے نکالناممکن ہو تو پہلے ہی نکال دیا جائے۔ اور اگر کھانے میں یہ پک گیا تو اس کی وجہ سے سالن میں کوئی کراہت نہیں آئے گی البتہ کھاتے وقت احتیاط کی جائے اور اسے کھایا نہ جائے ۔
وہ عبارات جن میں”نخاع الصلب“ کی مطلق کراہت مذکور ہے:
تفصیل کچھ یوں ہے کہ کئی کتبِ فقہ میں نخاع الصلب(حرام مغز) کی کراہت مذکور ہے۔جیسا کہ علامہ ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ (وفات: 1174ھ) اپنی کتاب" فاكهة البستان" میں لکھتے ہیں :
”وذكر في بیان الأحکام: نشاید خوردن پشتِ مازہ کہ جائے گاہ مني است، كذا في كنز العباد. وهو نخاع الصلب الذي يقال له بالفارسية "حرام مغز". وقد صرح بكراهة أكله في معدن الكنز ونصاب الإحتساب وغیرھما “
یعنی بیان الاحکام میں ذکر ہے:” پشتِ مازہ نہیں کھانا چاہیے کیونکہ یہ منی کا مقام ہے، جیسا کہ کنز العباد میں بھی آیا ہے۔“ اور یہ وہی نخاع الصلب ہے جسے فارسی میں "حرام مغز" کہتے ہیں۔ اس کی کراہت کا ذکر معدن الكنز اور نصاب الاحتساب وغیرہ کتابوں میں ہے۔(فاكهة البستان، ص172، دار الکتب العلمیہ،بیروت)
اور طحطاوی علی الدر میں ہے :
”وزید نخاع الصلب“
یعنی مکروہ اجزاء میں حرام مغز کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ (طحطاوی علی الدر، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد4،صفحہ360، مطبوعہ کوئٹہ)
امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ نے اپنے دوفتاوی میں حرام مغز کی کراہت کا ذکر کیا ہے۔چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں :”حلال جانور کے سب اجزاء حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں ۔۔۔ (8) حرام مغز ۔۔۔الخ “(فتاویٰ رضویہ، جلد20، صفحہ، 241، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
یونہی دوسرے مقام پر حلال جانو ر کے مکروہ اجزاء شمار کرتے ہوئے اولاً حدیث میں بیان کردہ سات اجزاء کاذکر کیا اور پھر لکھا: ”۔۔۔۔۔۔اور علامہ قاضی بدیع خوارزمی صاحب غنیہ الفقہاء وعلامہ شمس الدین محمد قہستانی شارح نقایہ وعلامہ محمد سیدی احمد مصری محشی درمختار وغیرہم علماء نے دو چیزیں اور زیادہ فرمائیں (۸) نخاع الصلب یعنی حرام مغز۔ اس کی کراہت نصاب الاحتساب میں بھی ہے ۔۔۔۔۔۔بحرالمحیط میں ہے:
الغدد والذکروالانثیان والمثانۃ و العصبان اللذان فی العنق والمرارۃ والقصید مکروہ اھ ملخصا۔
غدود، ذکر، خصیے، مثانہ، گردن کے دو پٹھے، پتہ، پیٹھ کاگودا مکروہ ہیں اھ ملخصا (ت) “(فتاوی رضویہ،جلد 20، صفحہ236 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مذکورہ بالا عبارات میں حرام مغز کی مطلق کراہت کا ذکر تو ہمیں مل جاتا ہے لیکن ان عبارات میں کراہت کے تنزیہی یا تحریمی ہونےکی وضاحت نہیں ہے۔ البتہ دیگر کئی فقہاء کرام نے اس کراہت کے تنزیہی ہونے کی صراحت کی ہے چنانچہ
وہ عبارات جن میں مکروہ تنزیہی ہونےکی صراحت ہے:
جامع الرموز کتاب الذبائح میں ہے:
” النخاع مثلثۃ وھو خیط ابیض فی جوف الفقار ینحدر من الدماغ یقال بالعربیۃ خیط الرقبۃ وبالفارسیۃ ”حرام مغز“ وان کرہ کراھۃ تنزیۃ “
لفظ "نخاع" کے نون پر تینوں حرکات پڑھی جا سکتی ہیں۔ اور یہ ایک سفید ریشہ ہے جو ریڑھ کی ہڈی کے اندر دماغ سے نیچے کی طرف اترتا ہے، اسے عربی میں "خیط الرقبہ" اور فارسی میں "حرام مغز" کہا جاتا ہے۔ اور(اس کا کھانا) مکروہ تنزیہی ہے۔(جامع الرموز، کتاب الذبائح، جلد3، صفحہ344، ایچ ایم سعید کراچی)
اس عبارت کے تحت حاشیہ غواص البحرین میں ہے:
” وانما غايته كراهة التنزيه “
یہ زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی ہے۔
(غواص البحرين هامش جامع الرموز، کتاب الذبائح، جلد3، صفحہ344، ایچ ایم سعید کراچی)
علامہ ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ اپنی کتاب" فاكهة البستان" میں لکھتے ہیں :
” قال في جامع الرموز: إن النخاع الذي يقال له بالفارسية "حرام مغز" یکرہ اکلہ كراهة تنزیہ. انتھی ودر "صیدیۃ"
شیخ الإسلام می آرد کہ در بعض روایات خوردن پشتِ مازہ یعنی حرام مغز مکروہ گفتہ ، أما فتوی بر آنست كه مكروه نیست، انتهى.“ یعنی جامع الرموز میں کہا گیا ہے: ”نخاع الصلب، جسے فارسی میں "حرام مغز" کہتے ہیں، اس کا کھانا مکروہ تنزیہی ہے۔“ اور كتاب"صیدیۃ" میں شیخ الاسلام نے ذکر کیا ہے کہ: ”بعض روایات میں پشتِ مازہ یعنی حرام مغز کا کھانا مکروہ کہا گیا ہے، لیکن فتویٰ اس پر ہے کہ یہ مکروہ نہیں ہے۔“(فاكهة البستان، ص172، دار الکتب العلمیہ،بیروت)
ان عبارات میں یہ بات واضح ہے کہ علماء نے جزمی انداز سے اس کراہت کے تنزیہی ہونے کا بیان کیا ہے۔ اور علامہ ہاشم ٹھٹوی رحمہ اللہ نے توشیخ الاسلام علیہ الرحمۃ کے حوالے سے اس کے مکروہ نہ ہونے کو ”آکد الفاظِ ترجیح“ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اور اگرچہ انہوں نے مطلقا کراہت کی نفی کی ہے لیکن دیگر عبارات کے ساتھ مطابقت و موافقت رکھنےکے لئے اس کا مفہوم یہ لیا جا سکتا ہے کہ یہاں کراہت تحریمی کی نفی مراد ہے۔ اور جن عبارات میں مطلق کراہت کا ذکر ہے وہاں کراہتِ تنزیہی مراد ہے۔ یوں عبارات میں تطبیق ہو جائے گی اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ فتوی اس پر ہے کہ نخاع الصلب مکروہ تحریمی نہیں ہے۔ بلکہ مکروہ تنزیہی ہے۔
مکروہ تنزیہی ہونےکے دلائل و قرائن:
درج ذیل دلائل و قرائن بھی اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ نخاع الصلب(حرام مغز) کی کراہت ، تحريمی نہ ہو بلکہ زیادہ سے زیادہ تنزیہی ہو۔
.1 نخاع الصلب(حرام مغز) بھی دیگر ہڈیوں کے گودے کی طرح ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ غلیظ و سمین یعنی گاڑھا اور موٹا قسم کا گودا ہوتا ہے ۔ تو جس طرح جانور کی دیگر ہڈیوں کا گودا جائزہے اسی طرح یہ گودا بھی جائز ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے حلال مذبوح جانور کی ہڈیوں اور ہڈیوں کے گودے کی مطلق اباحت بیان کی ہے چنانچہ فاکھۃ البستان میں علامہ ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ فتاوی حمادیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ”(ومنها تاكلون ) اي من البانها وما يتخذ منها كالسمن والزبدة وغير ذلك ولحومها وقرونها وعصبها وجلودها وأطرافها وعظامها ومخها وعروقها وشحومها۔۔۔۔ كذا في الفتاوى الحمادية “
ملتقطا اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ان جانوروں سے تمہاری خوراک ہے ۔“ یعنی ان کے دودھ اور اس دودھ سے بننے والی چیزیں جیسے مکھن، گھی اور اس کے علاوہ اور بھی چیزیں، اور اس کے گوشت، سینگ، پٹھے، کھال، پاؤں، ہڈیاں، گودا، رگیں، چربی ۔ ایسا فتاویٰ حمادیہ میں ہے۔ (فاكهة البستان، ص172و173، دار الکتب العلمیہ،بیروت)
کتبِ فقہ میں حرام مغز کے لئے ”نخاع “اور” قصید “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور علماء نے ”نخاع “اور” قصید “ کی وضاحت یہی کی ہے کہ یہ دیگر ہڈیوں کے گودے کی طرح ایک گودا ہی ہے۔ البتہ یہ غلیظ و سمین یعنی گاڑھا اور موٹا قسم کا گودا ہوتا ہے ۔چنانچہ غریب الحدیث للقاسم میں النخاع کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
” هو الذي يكون في فقار الصلب شبيه بالمخ“
وہ جوریڑھ کی ہڈی میں ہوتا ہے، اور ہڈی کے گودے کی طرح ہوتا ہے۔(غريب الحديث للقاسم بن سلام ، جلد3، صفحہ 254، مطبعة دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد- الدكن)
تاج العروس اور لسان العرب وغیرہ میں” قصید “ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
” القصيد وهو (المخ) الغليظ (السمين) الذي يتقصد أي يتكسر لسمنه، وضده الرار، وهو المخ السائل الذي يميع كالماء ولا يتقصد “
"قصید" ایسا گودا ہے جوگاڑھا اورموٹا ہوتا ہے جو اپنے موٹاپے کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے، اور اس کے برعکس "الرار" ہے، جو بہنے والا گودا ہوتا ہے جو پانی کی طرح بہتا ہے اور ٹوٹتا نہیں ہے۔ (لسان العرب، جلد3، صفحہ 354، دار صادر - بيروت)(تاج العروس، جلد9، صفحہ 40، دار الهداية)
.2 "نخاع الصلب " در اصل دماغ کا ہی ایک حصہ ہے ۔اور اس کا کام اور اس کی کیفیت بھی دماغ سے ملتی جلتی ہی ہوتی ہے۔اسی وجہ سے اسے علماء نے دماغ کا خلیفہ (نائب ) بھی قرار دیا ہے۔ چنانچہ ”حرام مغز“کی تشریح اردو لغت میں یوں کی گئی ہے: ”دماغ یعنی بھیجے کے مانند ایک نرم اور سفید گودا جو دماغ سے لے کر ریڑھ میں گردن سے کمر تک ہوتا ہے یہ درحقیقت دماغ ہی کا بڑھاؤ یا ایک حصہ ہے۔“(اردو لغت تاریخی اصول پر)
اور امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں :
” وللدماغ خليفة وهي النخاع وهو في الصلب “
یعنی دماغ کا ایک نائب ہوتا ہے جو نخاع (حرام مغز) ہےاور یہ صلب(ریڑھ کی ہڈی) کے اندر ہوتا ہے۔ (تفسير كبير، جلد31، صفحہ 120، دار إحياء التراث العربي - بيروت )
جب حرام مغز، دماغ یعنی سر کے اندر والےمغز(بھیجے) کا ہی ایک حصہ ہے تو جس طرح سر کا مغز کھانا سب کے نزدیک جائزو حلال ہے، اسی طرح اس دماغ کا دوسرا حصہ جو ریڑھ کی ہڈی میں ہوتا ہے وہ بھی جائز وحلال ہوگا۔اس کو ناجائز یا مکروہ تحریمی کہنے کی کوئی وجہ نہیں ۔
.3 "نخاع الصلب " ہر جانور کی ریڑھ کی ہڈی میں موجود ہوتا ہے۔ اور گوشت بناتے وقت بعض اوقات نکالا بھی نہیں جاتا۔بلکہ مرغی کی گردن میں موجود حرام مغز تو نکالنے کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہوتا اور یہ لازما کھانے میں پکتا ہی ہے ۔ اور یہ معاملہ صدیوں سے مسلمانوں میں رائج ہےاور علماء سے مخفی بھی نہیں ہے ۔ایسی صورت حال میں اگرنخاع الصلب ،مکروہ تحریمی ہوتا تو علماء ضرور اس بات پر تنبیہ فرماتےاور گوشت پکانے سے پہلے اس کو نکال دینے کا حکم دیتے۔اور اس کی کراہت تحریمی کا بیان کتب و علماء کے مابین شائع و ذائع و مشہور ہوتا۔ لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ہمیں فقط چند کتابوں میں اس کی کراہت کا ذکر ملتا ہے اور وہ بھی مطلق کراہت کا ۔ تو صدیوں سے مسلمانوں میں رائج ہونے اور علماء سے مخفی نہ ہونے کے باوجود اس کے ناجائز ہونے کی صراحتیں نہ ملنا بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ یہ مکروہ تحریمی نہیں۔
جیسا کہ امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے زکام کے ناقضِ وضو نہ ہونے کے متعلق یہی ایک دلیل بیان فرمائی کہ زکام ایک امرِ عام ہے ، ہر دوراور ہر طرح کے لوگوں میں اس کا وجود رہا ہے۔ ایسی عام چیز اگر ناقض وضو ہوتی تو اس کا حکم مشہور ہوتا اور کتب میں اس کا ذکر جا بجا ہوتا نہ یہ کہ تیرھویں صدی کے ایک فقیہ اس کا حکم استخراج فرماتے۔ تو ایسی عام ابتلا والی چیز کے بارے میں حکم کا کتب و علماء میں شائع و مشہور نہ ہونا بھی اس کے نہ ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔ایسے موقع پر اگر کوئی ایک شخص بیان کرے تو وہ مقبول نہیں ہوتا۔
چنانچہ امام اہل سنت کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
” لکنی اقول الزکام امر عام ولعلہ لم یکن انسان الاابتلی بہ فی عمرہ مرارا ومتیقن انہ وقع فی کل قرن وکل طبقۃ بل کل عام وفی عھد الرسالۃ و زمن الصحابۃ وایام الائمۃ بل لعلھم زکموا بانفسھم ایضا فلوکان ناقضا لوجب ان یشتھر حکمہ ویملأ الاسماع ویعم البقاع، ویتدفق منہ بحار الاسفار قدیما وحدیثا لاان لایذکر فی شیئ من الکتب ویبقی موقوفا الی ان یستخرجہ العلامۃ الطحطاوی علی وجہ الاستظہار فی القرن الثالث عشر،و قد علمت ان ماکان ھذا شانہ لایقبل فیہ حدیث روی اٰحادا لان الاٰحادیۃ مع توفر الدواعی امارۃ الغلط ۔
(لیکن میں کہتا ہوں) زکام ایک عام سی چیز ہے،شاید کوئی انسان ایسا نہ گزرا ہو جسے اپنی عمر میں چند بار زکام نہ ہوا ہو اور یقین ہے کہ ہر قرن ہر طبقہ بلکہ ہر سال واقع ہوا ہے اور عہدِ رسالت، زمانہ صحابہ اور دورِ ائمہ میں بھی ہوا ہے بلکہ خود ان حضرات کو بھی زکام ہوا ہو گا،اگر یہ ناقضِ وضو ہوتا تو ضروری تھا کہ اس کا حکم مشہور ہو ، لوگوں کے کان اس سے خوب خوب آشنا ہوں کہ سارے علاقوں میں پھیل جائے اور فقہ و حدیث کی قدیم و جدید کتابیں اس کے ذکر سے لبریز ہوں-نہ یہ کہ کسی کتاب میں اس کا کوئی ذکر نہ ہو اور تمام سابقہ صدیاں یوں ہی گزر جائیں یہاں تک کہ تیرھویں صدی میں علامہ طحطاوی بطورِ استظہار اس کا استخراج کریں، جب کہ معلوم ہے کہ جو ایسا عام معاملہ ہو اس میں بطریق آحاد روایت کی جانے والی حدیث بھی قبول نہیں کی جاتی اس لئے کہ کثرتِ اسباب و دواعی کے باوجود آحاد سے مروی ہونا غلطی کی علامت ہے ۔“ (فتاوی رضویہ، جلد1(الف)، صفحہ 366تا367، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ایک مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”والأثر فيه شاذ وبمثله لا يثبت التقدير فيما تعم به البلوى، ويحتاج الخاص والعام إلى معرفته؛ لأنه لو كان صحيحا لاشتهر لعلمهم به.“
یعنی اس بارے میں جو اثر مروی ہے وہ شاذ روایت ہے، اور ایسی روایت سے ان امور میں کوئی اندازہ (تقدیر) ثابت نہیں ہوتا جن میں عام طور پر ابتلاء ہوتا ہے، اور جن کی معرفت کی عام و خاص سب کو ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اگر وہ روایت صحیح ہوتی تو مشہور ہو جاتی اور لوگ اسے جانتے۔(المبسوط للسرخسي، جلد3، صفحہ 114، دار المعرفہ، بیروت)
اور علامہ کاسانی لکھتے ہیں ::
”ولأن هذه الأشياء مما يغلب وجودها فلو جعل شيء من ذلك حدثا لوقع الناس في الحرج، وما رووا أخبار آحاد وردت فيما تعم به البلوى، ويغلب وجوده، ولا يقبل خبر الواحد في مثله، لأنه دليل عدم الثبوت إذ لو ثبت لاشتهر“
اور اس لیے بھی کہ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کا پایا جانا غالب ہوتا ہے، تو اگر ان میں سے کسی چیز کو حدث (ناقض وضو) قرار دیا جائے تو لوگ سخت مشقت میں پڑ جائیں گے۔ اور جو انہوں نے اخبارِ آحاد روایت کی ہیں، وہ ان امور کے بارے میں وارد ہوئی ہیں جن میں عام طور پر ابتلاء ہوتا ہے اور جن کا وقوع کثرت سے ہوتا ہے، اور ایسی صورت میں خبرِ واحد قابل قبول نہیں ہوتی، کیونکہ یہ عدم ثبوت کی دلیل ہوتی ہے۔ اگر وہ (خبر) ثابت ہوتی تو مشہور ہوتی۔ ( بدائع الصنائع، جلد1، صفحہ 32 دار الکتب العلمیہ، بیروت)
.4 عمومی اصول یہی ہے کہ حلال جانور کو جب ذبح شرعی کر لیا جائے تو وہ اپنے تمام اجزاء کے ساتھ حلال ہو جاتا ہے سوائے وہ جس کے بارے میں خاص نص یا مکروہ تحریمی ہونے کی علت (جیسے خبیث ہونا) ثابت ہو جائے ۔
چنانچہ درمختار اور اس کی شرح طوالع الانوار میں ہے:
وما فی الھلالین من الدر”(إذا ما ذكيت شاة فكلها ... سوى سبع ففيهن الوبال) اي ففي اكلهن الوبال اي الاثم وهذا يشير الي الكراهة التحريمية او الى الحرمة وهي في الدم مسلمة وفيما عدها لا تتقر الا بعد تقرر خبثها “
جب کوئی بکری ذبح کی جائے تو اس کا گوشت کھاؤ... سوائے سات چیزوں کے، کیونکہ ان میں وبال ہے۔ مطلب ان کو کھانے میں وبال یعنی گناہ ہے۔ اور یہ تحریمی کراہت یا حرمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خون کے بارے میں تو حرمت مسلم ہے۔ اور باقی اشیاء کے بارے میں خبث ثابت ہونے کے بعد ہی حرمت ثابت ہو سکتی ہے۔(طوالع الانوار شرح درمختار، كتاب الكراهية، مخطوط)
فاکھۃ البستان میں علامہ ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ فتاوی حمادیہ کے حوالے سےنقل کرتے ہیں :
” وجميع ما كان في المذبوح المأكول سوى ما كره النبي ﷺ، وهو سبعة أشياء۔۔۔۔۔ وما سوى ذلك فهو مباح على اصله لان الاصل في الاشياء الاباحة كذا في الفتاوى الحمادية۔“
یعنی ذبح کیے ہوئے کھانے والے جانور کا سب کچھ مباح ہے سوائے اس کے جو نبی کریم ﷺ نے ناپسند فرمایا، وہ سات چیزیں ہیں۔ کیونکہ اشیاء میں اصل اباحت ہے ۔ ایسا فتاویٰ حمادیہ میں ہے۔ (فاكهة البستان، ص172و173، دار الکتب العلمیہ،بیروت)
اور"نخاع الصلب " کے متعلق نص تو کوئی منقول نہیں ہے۔اور اسے خبیث قرار دینے کی بھی کوئی وجہ نہیں۔ کہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے یہ دماغ یا ہڈیوں کے گودے کے مشابہ ہے اور ایسی اشیاء کو کسی نے بھی خبیث اشیاء میں سے شمار نہیں کیا۔ یونہی کسی اور اعتبار سے بھی اس کا تعلق گندگی یا نجاست سے نہیں کہ اسے خبیث قرار دیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے اپنے تفصیلی فتوے میں نخاع الصلب (حرام مغز)کی فقط کراہت ذکر کی ہے لیکن اس کا خبیث یا گندا ہونا بیان نہیں کیا۔ حالانکہ اپنے اسی فتوے میں مختلف چیزوں( یعنی اوجھڑی و آنتوں) کوجب بوجہ خبث ناجائز قرار دیا تو ان خبیث چیزوں کی خباثت یوں واضح فرمائی کہ ان کا تعلق نجس و بدبودار قسم کی گندی چیزوں سے ہے اس لئے یہ خبیث و ناجائز ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام اہل سنت علیہ الرحمہ کے نزدیک بھی نخاع الصلب (حرام مغز) خبیث یا مکروہ تحریمی نہیں ورنہ آپ اس کی وضاحت ضرور فرماتے۔
کیا نخاع الصلب(حرام مغز) منی کی جائے گاہ ہے؟
اشکال:
آپ نے کہا کہ حرام مغز یعنی ریڑھ کی ہڈی کے گودے کو خبیث قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ۔ جبکہ وجہ تو موجود ہے اور وجہ یہ ہے کہ حرام مغز ”جائے گاہ منی “ ہے ۔ جیسا کہ اوپر فاکھۃ البستان میں کنز العباد کے حوالے سے عبارت منقول ہے۔ لہذا جب منی ایک گندی و ناپاک چیز ہے تو اس کی” جائے گاہ“ بھی خبیث ، و ناجائز ہوگی جیسے آنتیں ، اوجھڑی وغیرہ مخزن و معدنِ نجاست ہونے کی وجہ سے خبیث قرار پائیں۔
جواب:
تحقیق یہ ہے کہ نخاع الصلب (حرام مغز) منی کا ”مُستَقَر / مَخزن“یعنی جائے گاہ نہیں ہے۔ بلکہ منی کا مُستَقَر ، منی کے اوعیہ (مخصوص تھیلی یا رگیں ) ہیں، جو بیضوں کےقریب ہوتی ہیں۔اور جدید میڈیکل سائنس کے مطابق بھی بیضوں کے قریب ایک مخصوص غدود(Gland) سے اس کا اخراج ہوتا ہے۔ اور اسی بات کی صراحت محقق علماء نے کی ہے چنانچہ
آیت مبارکہ
” یَّخْرُ جُ مِنْۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآىٕبِ “
کے تحت امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالی نے تفسیر کبیر میں سوال جواب کی شکل میں گفتگو کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ”منی “ کا صلب سے جو تعلق ہے وہ منی کے مستَقَر(جائے گاہ) ہونے کا نہیں ہے بلکہ وہ تعلق یوں ہے کہ تولیدِ منی میں بنیادی معاون عضو دماغ ہوتا ہے۔ اور دماغ کا خلیفہ نخاع (حرام مغز) صُلب میں واقع ہوتا ہے اس لئے صلب کا ذکر یہاں کیا گیا۔ چنانچہ تفسیر کبیر کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
”وإن كان المراد أن معظم أجزاء المني يتولد هناك فهو ضعيف، بل معظم أجزائه إنما يتربى في الدماغ، والدليل عليه أن صورته يشبه الدماغ، ولأن المكثر منه يظهر الضعف أولا في عينيه، وإن كان المراد أن مستقر المني هناك فهو ضعيف، لأن مستقر المني هو أوعية المني، وهي عروق ملتف بعضها بالبعض عند البيضتين، وإن كان المراد أن مخرج المني هناك فهو ضعيف، لأن الحس يدل على أنه ليس كذلك الجواب: لا شك أن أعظم الأعضاء معونة في توليد المني هو الدماغ، وللدماغ خليفة وهي النخاع وهو في الصلب، وله شعب كثيرة نازلة/ إلى مقدم البدن وهو التريبة، فلهذا السبب خص الله تعالى هذين العضوين بالذكر، “
اگر یہ مراد ہو کہ زیادہ تر منی کے اجزاء وہیں(صُلب میں ) پیدا ہوتے ہیں تو یہ بات کمزور ہے، بلکہ زیادہ تر اجزاء دماغ میں نشوونما پاتے ہیں۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کی شکل دماغ سے مشابہت رکھتی ہے، اوراسی وجہ سے زیادہ منی خارج کرنے والا پہلے اپنی آنکھوں میں کمزوری محسوس کرتا ہے۔ اوراگر یہ مراد ہو کہ منی کا مستقر وہاں ہے تو یہ بھی کمزور ہے، کیونکہ منی کا مستقر منی کے اوعیہ (تھیلی یا رگیں) ہیں، جو بیضوں کے ساتھ لپٹی ہوتی ہیں۔ اگر یہ مراد ہو کہ منی کا مخرج وہاں ہے تو یہ بھی کمزور ہے، کیونکہ حواس یہ بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ منی کے تولید میں سب سے زیادہ معاون عضو دماغ ہے، اور دماغ کا نائب بھی ہے جو نخاع(حرام مغز) ہےاور یہ صلب میں ہوتا ہے۔ اس کی کئی شاخیں بدن کے اگلے حصے تک جاتی ہیں ، جسے التريبة کہتے ہیں ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں اعضاء کو ذکر کیا ہے۔(تفسير كبير / مفاتيح الغيب، جلد31، صفحہ 120، دار إحياء التراث العربي - بيروت )
یونہی تفسیر بیضاوی میں ہے:
” ومقرها عروق ملتف بعضها بالبعض عند البيضتين “
یعنی منی کا مقام وہ عروق (رگیں) ہیں جو بیضتین (خصیتین) کے قریب ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہوتی ہیں ۔(تفسير البيضاوي، جلد5، صفحہ 303، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
ان مفسرین نے جو بات بیان کی اسی کی تائید آج جدیدمیڈیکل سائنس بھی کرتی ہے ۔جدید سائنسی تحقیق کے لئے درج ذیل لنک وزٹ کیا جا سکتا ہے
(https://www.britannica.com/science/seminal-vesicle)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ "نخاع الصلب " یعنی ریڑھ کی ہڈی کا گودا منی کا”مُستَقَر / مَخزن“ (جائے گاہ) نہیں لہذا اس اعتبار سے اسے خبیث یا مکروہ تحریمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن یہ منی کی پیدائش میں معاون اور اس کی جائے گاہ سے قرب رکھتا ہے ۔ لہذا اس تعلق کی وجہ سے اس میں زیادہ سے زیادہ کراہتِ تنزیہی کا حکم ہوگا ۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ مذکورہ کتاب یعنی کنز العباد میں ” نشاید خوردن (نہیں کھانا چاہیے) “جیسے الفاظ استعمال کئے جو کم درجہ کی کراہت (یعنی تنزیہی)کی طرف اشارہ ہیں۔
سوال:
اگر یہ مكروه تنزیہی ہے تو اسے ”حرام مغز “کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا تو یہ نام ہی اس کے مکروہ تحریمی ہونے کی نشانی ہے۔
جواب:
بعض علماء نے اس کا نام ”حرام مغز “ہونے پر کلام کیا ہے اورانہوں نے لکھا ہے کہ یہ لفظ اصل میں یوں نہیں تھا۔ بلکہ اصل لفظ ” حرام المقَرّ “تھا پھر تبدیل ہو کر” حرام مغز“ مشہور ہوگیا۔
جامع الرموز میں علامہ قہستانی لکھتے ہیں :
” قیل انہ مصحّف فان اصلہ حرام المَقَرّ من العظم “
یعنی ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ یہ لفظ مصحّف( تبدیل شدہ ) ہے، کیونکہ اس کی اصل "حرام المقر" ہے ۔
اس کے حاشیہ غواص البحرین میں اس کی وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے:
” (فان اصله) اى حرام مغز بالغين والزاء المعجمتين (حرام المقر) بالقاف والراء المشددة المهملة أي حرام مكان قراره( من العظم ) بيان المقر لان اكل العظم حرام “
یعنی لفظ حرام مغز(غین اور زاء معجمہ کے ساتھ) کی اصل حرام المقر (مقر میں قاف اور راء مشدد مہملہ)ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ جگہ حرام ہے جہاں اس کا مقام ہے یعنی ہڈی ۔ من بیانیہ ہے اور العظم کہہ کر مقر کی وضاحت کی ہے کیونکہ ہڈی کھانا حرام ہے۔(ہڈی کی ممانعت باعثِ ضرر ہونے کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔
(جامع الرموز، کتاب الذبائح، جلد2، صفحہ344، ایچ ایم سعید کراچی)
یہ ایک قول ہے جو صاحب جامع الرموز نے ” قیل “ کہہ کر بیان کیا ہے ۔ اس پر اگرچہ مزید قیل و قال کی جا سکتی ہے لیکن بہر حال اس تفصیل کے درست ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر دیکھا جائے تو اسے ” حرام مغز“فقط فارسی یا اردو میں کہا جاتا ہے ۔اس کا عربی نام ”نخاع الصلب “ یا ”قصید“ ہے اور اسی نام سے فقہاء نے اس کی کراہت بیان کی ہے۔اس نام میں حرمت یا کراہتِ تحریمی کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ کسی چیز کی حرمت کا فیصلہ فقط کسی زبان میں رکھے گئے اس کے نام سے نہیں کیا جاتا(خصوصا جبکہ اس نام کا واضع معلوم نہ ہو) بلکہ یہ فیصلہ شرعی دلائل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
نخاع الصلب کے حوالے سے نصاب الاحتساب کی عبارت پر کلام :
اشکال:
کتاب نصاب الاحتساب میں نخاع الصلب یعنی حرام مغز کو خبیث اشیاء میں شمار کیا گیا ہے چنانچہ اس کی عبارت یہ ہے :
” وأما ما يكره فهو عشرة ، الغدة، والقبل، والدبر، والذكر، والخصيان، والمرارة، والمثانة، ونخاع الصلب. أما الـدم فلقوله تعالى : ( حرمت عليكم الميتة والـدم ) وأما مـا سواه فلأنها من الخبائث “
یعنی حلال جانور کی جو چیزیں مکروہ ہیں وہ دس(10) ہیں۔(1) غدود(2)قُبل یعنی مادہ جانور اگلا مقام(3)، دُبریعنی پچھلا مقام (4)، ذَکَر یعنی مردانہ عضو(5) دونوں خصیے(6) پِتّہ(7)، مثانہ،(8) اور نخاع الصُلب (یعنی ریڑھ کی ہڈی کا گودا)۔رہا خون تو اس کے حرام ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:”حرام کیا گیا تم پر مردار اور خون۔“ اور ان کے سوا باقی چیزیں اس لیے مکروہ ہیں کہ یہ خبیث اشیاء میں سے ہیں۔(نصاب الاحتساب،فصل فی الاحتساب علی الطباخ،ص 375،مکتبۃ الطالب الجامعی،مکۃ المکرمہ)
تو جب اس کے خبائث میں سے ہونے کی صراحت موجود ہے تواس کا مکروہ تحریمی ہونا بھی اس سے واضح ہو جاتا ہے ۔
جواب:
نصاب الاحتساب کی اس عبارت میں اگرچہ نخاع الصلب کو بھی خبائث کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے لیکن نخاع الصلب کا خبائث میں سے ہونا راجح نہیں ہے۔بلکہ راجح اس کا خبائث میں سے نہ ہونا ہے۔جس کی درج ذیل وجوہ ہیں:
(1) نخاع الصلب کے مکروہ تحریمی نہ ہونے کو الفاظ ترجیح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جیسا کہ فاکھۃ البستان میں شیخ الاسلام کے حوالے سے گزرا۔اور ترجیح اسی کو ہوتی ہے جس طرف صریح تصحیح مروی ہوکما لا یخفی۔
(2) نخاع الصلب کو خبائث میں سے شمار کر کے مکروہ تحریمی بتانے والے صاحب نصاب الاحتساب متفرد ہیں جبکہ دوسری طرف اس کو مکروہ تنزیہی بتانے والے متعدد علماء ہیں جن کا بیان اوپر گزرا۔ اور ترجیح اسی کو ہوتی ہے جس طرف زیادہ ہوں۔چنانچہ فتاوی رضویہ میں وجوہاتِ ترجیح بیان کرتے ہوئے ایک وجہ ترجیح یوں لکھی: ” اس پر جزم واعتماد کرنے والوں کی کثرت۔ امداد الفتاح وردالمحتار وعقوالدریہ میں ہے: القاعدۃ ان العمل بما علیہ الاکثر
(قاعدہ یہ ہے کہ اکثریت کے قول پر عمل ہوگا۔ت) “
(فتاوی رضویہ، جلد12، صفحہ491، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
(3) صاحب نصاب الاحتساب نے متفرد ہونے کے علاوہ نخاع الصلب کے خبیث ہونے پرنہ تو کوئی نقل پیش کی اور نہ کوئی دلیل بیان کی ۔ اور نہ اس کی کوئی وجہ ظاہر ہے ۔ بلکہ اس کے عکس (خبیث نہ ہونے ) کی وجہ زیادہ ظاہر ہے جیسا کہ تفصیل اوپر گزری۔اور دوسری طرف مذبوح حلال جانو رکے اجزاء میں اصل بھی حلت ہے۔ تو جب تک اس کا خبائث میں سے ہونا معتمد دلیل سے ثابت نہ ہو تب تک فقط نصاب الاحتساب کی اس بلا نقل و بلا دلیل عبارت پر بنیاد رکھ کر اس کے ناجائز ہونے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔ اس اعتبار سے بھی ترجیح خبیث نہ ہونے کو ملتی ہے۔ کہ یہی اصل کے موافق ہے او راختلاف کے وقت ترجیح اس کو ہوتی ہے جو اصل کے موافق ہو۔ نیز اسی کی وجہ ظاہر اور یہی من حیث الدلیل اقوی ہے اور فقہاء کرام کی صراحت کے مطابق احتیاط بھی اقوی الدلیلین پر عمل کرنے میں ہے۔
چنانچہ ایک مسئلے کے متعلق دو طرف کے اقوال میں سے ایک کی ترجیح بیان کرتے ہوئے اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں :
” وقول الامام الاجل ظھیر الدین المرغینانی لقول الاکثرین انہ الاحسن مع ظھور وجہہ ومع انہ علیہ الاکثر وانہ جزم بہ الاکابر کقاضی خان وصاحب المحیط وغیرھما لایقاومہ قول الغنیۃ لخلافہ احوط مع عدم ظھور وجہہ بل ظہور وجہ عدمہ وانما الاحتیاط العمل باقوی الدلیلین کما فی الفتح والبحر وغیرھما لاجرم لم یعرج علیہ المحقق الشارح نفسہ فی شرحہ الصغیر الملخص من ھذا الکبیر انما اقتصر علی نقل قول ابرھیم وللّٰہ الحمد علی تواتر الاٰنہ علی عبدہ الاثیم۔ “
یعنی اب رہا یہ کہ غنیہ نے اسے احوط کہا تو امام جلیل ظہیر الدین مرغینانی نے قولِ جمہور کو احسن ۱کہا ، اس کی وجہ بھی ظاہر ہے ،اسی طرف اکثر ہیں ، اسی پر امام قاضی خاں اور صاحبِ محیط وغیرہما جیسے اکابر نے جزم کیا تو اس کے خلاف قول کو صاحبِ غنیہ کا '' احوط '' کہنا کیا حیثیت رکھتا ہے؟ جبکہ اس کی وجہ بھی ظاہر نہیں بلکہ اسکے عدم کی وجہ ظاہر ہے رہا احتیاط تو احتیاط اسی میں ہے کہ دو دلیلوں میں سے جوزیادہ قوی ہو اسی پر عمل کیا جائے جیسا کہ فتح القدیر ، البحر الرائق وغیرہما میں ہے- آخر کار خود شارح محقق نے اس شرح کبیر کی تلخیص کر کے جو شرح صغیر لکھی ہے اس میں اس قول پر نہ ٹھہرے بس شیخ ابراہیم کا کلام نقل کرنے پر اکتفا کی۔ (فتاوی رضویہ، جلد1(الف)، صفحہ381و382رضافاؤنڈیشن، لاہور)
تعارض کے وقت اصل کے موافق قول کو ترجیح ہوتی ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے: ” اگر دلائل میں تعارض بھی ہو تو مرجع اصل ہے ،
کمانصوا علیہ فی الاصول وتشبثوا بہ فی مسائل “
یعنی علماء نے یہ بات کتبِ اصول میں بیان کی ہے اور علماء نے مختلف مسائل میں اسی کا سہارا لے کر ترجیح بیان کی ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد4، صفحہ440، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
جس کی دلیل قوی ہو وہ زیادہ لائقِ قبول ہوتا ہے ۔فتاوی رضویہ میں ہے:
” ولاشک ان الاقوی دلیلااحق تعویلا“
یعنی بلا شبہ جس قول کی دلیل زیادہ قوی ہوگی وہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے(فتاوی رضویہ، جلد11، صفحہ129، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
(4) اورصاحبِ نصاب الاحتساب کی اس بات پر امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا اعتماد نہ فرمانا بھی اس کے کمزور ہونے کی دلیل ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام اہل سنت نے ”نخاع الصلب(حرام مغز)“ کی کراہت بیان کرتے ہوئے فقط اتنا لکھا کہ ” اس کی کراہت نصاب الاحتساب میں بھی ہے۔“ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نصاب الاحتساب کی یہ عبارت امام اہل سنت علیہ الرحمۃ کے پیشِ نظر تھی لیکن اس کے باوجود محل بیان میں آپ نے نہ تو نصاب الاحتساب کی عبارت ذکر کی ۔ اور نہ ہی اس عبارت کے حوالے سے اس کا خبیث ہونا بیان کیا ۔ حالانکہ اس سے ماقبل متصل جن چھے چیزوں کا بیان کیا ہے ان کا خبیث اشیاء میں سے ہونا نقل بھی فرمایا ہے اور اس کو برقرار بھی رکھا ہے۔ یونہی ما بعد بھی کئی اجزاء کا خبائث میں سے ہونا واضح بیان فرمایا۔ بلکہ جانور کے ایک جزو ” دُبر “ کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ اس کا مکروہ ہونا اور اس کا خبائث میں ہونا فقط صاحبِ ینابیع نے بیان کیا تھا (بالکل اسی طرح جس طرح صاحب ِ نصاب الاحتساب نے نخاع الصلب کو خبائث میں شمار کیا)۔ لیکن وہاں امام اہل سنت نے نہ صرف صاحب ینابیع کی عبارت نقل کی بلکہ اس کا خبیث ہونا ، واضح و مدلل بھی کیا ۔
تو امام اہل سنت علیہ الرحمۃ کا بالقصد یہ انداز اختیار فرمانا کہ نصاب الاحتساب کی عبارت نظر میں ہوتے ہوئے نقل نہ فرمانا، اور اس عبارت سے فقط کراہت کا حکم لینا اور خبیث کا حکم چھوڑ دینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نصاب الاحتساب نے جو اسے خبائث میں شمار کیا ، یہ امام اہل سنت علیہ الرحمۃ کے نزدیک معتمد نہیں۔
(5) نخاع الصلب کو خبیث قرار نہ دینے میں تیسیر و آسانی بھی ہے کہ عموما لوگ گوشت بناتے وقت حرام مغز کو نکالتے نہیں بلکہ ایسے ہی پکالیتے ہیں ۔ خصوصا مرغی کی گردن تو لوگ اسی طرح کھا بھی رہے ہوتے ہیں ۔ اور اس میں سے موجود حرام مغزسے بچ نہیں رہے ہوتے۔ تو اس کو مکروہ تحریمی قرار دینے میں مشکل ہے جبکہ مکروہ تنزیہی قرار دینے میں آسانی ہے ۔ ترجیح اسی کو ہوتی ہے جس میں آسانی ہو ۔ فتاوی رضویہ میں وجوہاتِ ترجیح بیان کرتے ہوئے ایک وجہ ترجیح یوں لکھی: ” اسی میں تیسیر ہے ۔۔۔
والتیسیر محبوب فی نظر الشارع
یُرِیْدُ اللہ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-
وقال صلی اللہ علیہ وسلم ان الدین یسر الحدیث
اور شارع کی نظر میں آسانی پسندیدہ ہے (ارشادِ خداوندی ہے) ”اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا “اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بے شک دین آسان ہے'' (الحدیث)۔(فتاوی رضویہ، جلد4، صفحہ441، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب:محمد ساجد عطاری
مصدق:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: NRL-252
تاریخ اجراء:07 ذیقعدۃ الحرام 1446 ھ/05 اپریل 2025 ء