Hijron Ko Paise Na Dene Se Unki Baddua Lagti Hai?

 

ہیجڑوں کو پیسے نہ دینے سے ان کی بددعا لگتی ہے؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری   

فتوی نمبر:FSD-9188

تاریخ اجراء: 24 جمادی الاولی     1446 ھ / 27 نومبر 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  شادی بیاہ کے موقع پر ہیجڑے گھروں میں آتے ہیں اور پیسے مانگتے ہیں  ،لوگ مجبوراً انہیں پیسے دے دیتے ہیں  کہ اگر انہیں کچھ بھی نہ دیا جائے ، تو جان نہیں چھوڑتے اور برا بھلا کہتے ہیں اور بد دعائیں دیتے ہیں اور   یہ بھی مشہور ہے کہ اگر ان کو پیسے نہ دئیے جائیں اور یہ بد دعا دے دیں تو  ان کی بد دعا  قبول ہوجاتی  ہے  ،ہماری رہنمائی فرمائیں ، ان کو پیسے دینا جائز ہے یا نہیں؟ نیز کیا ان کی بددعا قبول ہونے  کی کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً یاد رہے کہ اگر کسی شخص کے پاس اپنی ضروریاتِ شرعیہ کو پورا کرنے کی مقدار مال موجود ہو  ،مثلا اس کے پاس ایک دن کے کھانے کے پیسے اور بدن چھپانے کے لیےکپڑا موجود ہو یا ان ضروریات کو پورا کرنے کی مقدار پیسے کمانے  کی طاقت  اور موقع رکھتا  ہو ، تو ایسے شخص کا  مانگنا،ناجائزو حرام ہے،خواہ وہ مرد ہو یا ہیجڑا وغیرہ  اور اگردینے والےکو علم ہو کہ اس کے پاس بقدرِضرورت  مال ہے یا یہ کمانے کی طاقت رکھتا ہے ،تو اسے    بھیک دینا بھی حرام ہے اور شدید حاجت مند ہے تو اس کے لئے بھیک مانگناجائز ہے اور اس شدید حاجت کی کافی تفصیل ہے جس میں آج کل کے پیشہ ور بھکاری ہرگز شامل نہیں۔

    ہیجڑے  کے بھیگ مانگنے اور انہیں پیسے دینے کے متعلق  بھی حکم شرعی ان ہی احکام کی روشنی میں دیکھا جائے گا اور جس عام صورت حال کے متعلق سوال کیا گیا ہے اس کا جواب یہ ہےکہ  شادی ،بیاہ یا دیگر تقریبات میں  جو ہیجڑے وغیرہ مانگنے آ تے ہیں،یہ عمومی طور پر پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں  اور  یہ بقدر ضرورت مال کمانے کی بھی استطاعت رکھتے ہیں ،لہٰذاانہیں پیسے وغیرہ دینا جائز نہیں ، لیکن اگر یہ پیسے لیے بغیر جان نہ چھوڑیں اور برا بھلا کہیں اور عزت کو اچھالیں،تو   حتی الامکان کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جائے کہ انہیں کچھ بھی نہ دینا پڑے،مگر پھربھی باز نہ آئیں ،تو اپنی عزت بچانے اور ان سے جان چھڑانے کے لیےکچھ پیسے  دینا جائز ہے اور ان  کے لیے لینا ،بہر صورت حرام ہے ۔

   رہایہ سوال کہ ان کی بد دعا لگتی ہے یا نہیں ؟تواس حوالے سے قرآن و حدیث ،صحابہ کرام اور فقہائے کرام  کے اقوال میں کہیں بھی صراحت موجود نہیں  ،یہ صرف ” تَوَہُّم“ہے ،اس  کی شریعت  میں کوئی اصل نہیں ، لہٰذا یہ نظریہ رکھنا درست نہیں کہ اگر ان کو  پیسے نہ دئیے ،تو ان کی بد دعا لگ جائے گی ، البتہ بعض  افراد کے متعلق فرمایا گیا کہ ان کی دعا مقبول ہے جیسے مظلوم   کہ ظالم کے خلاف اس کی دعا قبول ہے ، جبکہ  ہیجڑے صرف ہیجڑہ ہونے کے طور پر کوئی مظلوم نہیں۔

   غیر مستحق کے بھیک مانگنے کی مذمت کے متعلق  حدیث مبارک میں ہے :وعن عبد اللہ بن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مایزال الرجل يسأل الناس حتی یاتی یوم القيامة لیس فی وجهه مزعة لحمترجمہ :نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا۔(صحیح البخاری،جلد2،صفحہ 123،مطبوعہ دار  طوق النجاۃ)

   غیرمستحق شخص کے لیے سوال کرنااور اسے دینا ،دونوں ناجائز و حرام ہیں،جیساکہ  در مختار میں ہے:”ولا یحل ان یسأل شیئا من القوت من لہ قوت یومہ بالفعل او بالقوۃکالصحیح المکتسب،ویأثم معطیہ ان علم بحالہ لاعانتہ علی المحرم ‘‘ترجمہ:جس کے پاس ایک دن کے کھانے کو ہے یا تندرست ہے کہ کما سکتا ہے ،اُسے کھانے کے لئے سوال حلال نہیں اورجس کو اس کی حالت کا علم ہو،تواس کے لیے حرام پر مدد کرنے کی وجہ سےایسے شخص کو دینا  بھی جائز نہیں ۔(درمختارشرح تنویر الابصار،جلد3،صفحہ 357،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’جو اپنی ضروریات شرعیہ کے لائق مال رکھتا ہے یا اس کے کسب پر قادر ہے اُسے سوال حرام ہے اور جو اس مال سے آگاہ ہو اُسے دینا حرام اور لینے اور دینے والا دونوں گنہگار و مبتلائےآثام۔“(فتاوی رضویہ ،جلد 10،صفحہ307،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اپنی عزت بچانے کی خاطراور جان چھڑانے کے لیے کسی کو پیسے دینا جائز  ہے ،جیساکہ فتاوی رضویہ میں ہے:”لوگ کہ اپنی آبروبچانے کودیتے ہیں خاص رشوت دیتے ہیں اوررشوت صریح حرام، بایں ہمہ شرع نے حفظِ آبروکےلئے انہیں دینادینے والے کے حق میں رَوَافرمایا،اگرچہ لینے والے کوبدستورحرام محض ہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد 17،صفحہ 300،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اگر ہجڑے جان نہ چھوڑیں ،ضد پر اتر آئیں اور ہتک آمیز رویہ اپنائیں ،تو ان سے جان چھڑانے کے متعلق امیر اہلسنت  ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں :”حتی الامکان ان سے جان چھڑائی جائے اور اگر واقعی ان کے طرز عمل سے رُسوائی کا سامنا ہو تو ان کو خاموش کرانے کی نیت سے کچھ  دینا دینے والے کے لئے جائز ہوگا کہ حدیثوں سے ثابت کہ اگر کوئی شاعر کسی کی ہجو  میں اشعار لکھ کر اُس کی عزت اچھالتا ہو تو اسے خاموش کروانے کے لئے کچھ دینا جائز ہے گو کہ یہ دینا رشوت ہے لیکن ایسے موقع پر رشوت دینا جائز ہے۔ مگر لینے والے کے لیے بہر حال حرام  اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔“(پردے کے بارے میں سوال جواب،صفحہ 291-292،مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ ،کراچی)

   مظلوم کی ظالم کے خلاف  دعا قبول ہے، جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اتق دعوة المظلوم، فإنها ليس بينها وبين الله حجاب“ ترجمہ : مظلوم کی بد دعا سے بچو !بے شک اس کی  بد دعا اور اللہ پاک کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔(صحیح البخاری،جلد3،صفحہ 129،مطبوعہ دار  طوق النجاۃ)

   جو شخص مظلوم نہ ہو اوردوسرے کے بارے میں بد دعا کرے ،تو وہ مقبول نہیں ،جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لایزال یستجاب للعبد ما لم يدع باثم او قطيعة رحم‘‘ترجمہ:ہمیشہ بندے کی دعا قبول ہوتی ہے،جبکہ وہ گناہ یا رشتہ کاٹنے کی دعا نہ کرے۔(الصحیح لمسلم ،جلد8،صفحہ87،مطبوعہ دار الطباعة العامرة ، تركيا)

   اس کے  تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے:’’ ومنه الدعاء على من لم يظلمه مطلقا ‘‘ترجمہ:(جو  بد دعائیں قبول نہیں ہوتیں)ان میں ایسے شخص کی بد دعا بھی ہے ،جس   میں  بد دعا کرنے والے پر  ظلم نہ کیا ہو ۔( مرقاۃ المفاتیح ،جلد4، صفحہ1525،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   بلا وجہ شرعی بد دعا کرنا ،جائز نہیں ،جیساکہ فتاوی فیض الرسول میں ہے : ’’اگر واقعی عمرو نے بلا وجہ شرعی مسلمانوں کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے اور صرف نفسانی غرض سے کسی سنی مسلمان کو برباد کرنے کی دھمکی دیتا ہے،تو وہ ظالم جفا کار ہے،اس پر توبہ لازم ہے،ذاتی جھگڑے کی وجہ سے کسی مسلمان کے لیے بد دعا کرنا، جائز نہیں ۔“(فتاوی فیض الرسول،جلد2،صفحہ554،مطبوعہ شبیر برادرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم