
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-487
تاریخ اجراء:18 محرم الحرام1446ھ/25جولائی 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں جس ملک میں رہتا ہوں، وہاں پر ہیلتھ انشورنس اور گاڑی کی انشورنس کروانا لازمی ہے،کیا ایسی صورت میں مجھے انشورنس کروانے کی اجازت ہے؟ اور ایسی صورت میں اگر میری گاڑی کو کچھ نقصان پہنچتا ہے تو کیا میں اپنی گاڑی کو انشورنس سے رپئیر کرواسکتا ہوں، یونہی اگر میں بیمار ہوتا ہوں، تو کیا میں انشورنس سے اپنی بیماری کا علاج کرواسکتا ہوں، جبکہ ایسی جگہیں اور ہسپتا ل موجود ہیں جہاں بغیر انشورنس کے بھی گاڑی کا کام اور اپنی بیماری کا علاج کروایا جاسکتا ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہیلتھ انشورنس اور کار انشورنس میں سے ہر ایک ناجائز و حرام اور گناہ ہے کہ یہ جوئے کی صورت ہے،وہ اس طرح کہ اس میں اپنی رقم کو خطرےپر پیش کیا جاتا ہے، یعنی اگر بیمار ہوئے تو ہیلتھ انشورنس کی صورت میں اپنی جمع کروائی گئی رقم سے زیادہ خرچے پر علاج ہوجائے گا، ورنہ جمع کروائی گئی رقم بھی واپس نہیں ملے گی، یونہی کار انشورنس کروانے کی صورت میں اگر کار کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا اور کار کو نقصان پہنچا، تو یہ نقصان کمپنی کو بھرنا ہوگا، اور اس طرح پالیسی ہولڈر کافائدہ ہوجائے گا کہ اسے کم پیسہ دے کرنقصان ہونے کی صورت میں زیادہ رقم کے ساتھ نقصان کی تلافی حاصل ہو جاتی ہے، اوراگر کار کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، تو اس صورت میں جمع کروائی گئی رقم پالیسی ہولڈر کو واپس نہیں ملتی اور اس کی ساری رقم ضبط ہوجاتی ہے اور یوں کمپنی کا فائدہ ہوجاتاہےاور یہی جُوا ہے جو کہ قرآن و حدیث کی رُو سے ناجائز و حرام ہے ،لہٰذا عام حالات میں ہیلتھ انشورنس یا کار انشورنس کروانے کی ہرگز اجازت نہیں۔ البتہ جو شخص ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں انشورنس کروانا لازمی ہو،اور اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو،تو وہاں بامرِ مجبوری ایسا شخص معذور ہے، اور اس صورت میں اگر وہ انشورنس کروائے، تو وہ گنہگار نہیں ہوگا، مگر اس صورت میں بھی ایسا شخص صرف انشورنس کمپنی سے اُسی قدرمیڈیکل کی سہولت اٹھاسکتا ہے، جو اس نے انشورنس کی مدمیں جمع کروائی ہے، اِس سے زیادہ فائدہ اٹھانا،جائزنہیں، یونہی کار کی رپئیرنگ وغیرہ کا خرچہ بھی اسی رقم کی بقدر کرواسکتا ہے، جو اس نے جمع کروادی ہے، اگر اس سے زائد کا خرچہ ہو، تو پھر اس کمپنی سے ٹھیک نہیں کرواسکتا، کہ یہ جوئے کے ذریعے زائد رقم کا نفع حاصل کرنا ہے جو کہ حرام اور دوسروں کا مال باطل طریقے سے کھانا کہلاتا ہے۔ ہاں اگر یہ انشورنس کسی کافر کمپنی سے کروائی گئی ہو، تو ایسی صورت میں بیمار ہونے ، یا کار رپئیرنگ میں اپنی جمع کردہ رقم سے زائد رقم کا نفع حاصل کرنا بھی جائزہوگا، کیونکہ فی زمانہ عمومی طور پر کفار حربی ہیں ،اور کافرحربی کا مال و منافع مباح ہوتے ہیں، اُسے دھوکا دئیے بغیر جس طریقے سے بھی اس کا مال حاصل ہو، مسلمان کے لیےحلال ہوتاہے، لیکن صاحبِ وجاہت اور دیندار افراد جن کو لوگ اپنی نافہمی کے سبب، اس طرح کا معاملہ کرنے پر بُرے نام سے مشہور کریں، اُن کو اس طرح کافر انشورنس کمپنی سے بھی منافع حاصل کرنے سے بچنا چاہیے کہ جس طرح بُرے کام سےبچنا ہوتاہے، اسی طرح بُرے نام سے بھی بچنا چاہیے۔
واضح رہے کہ کافر کمپنی سے انشورنس میں زائد رقم و منافع کا حاصل کرنا، اگرچہ جائز ہے، مگر کافر کمپنی سے بھی انشورنس کروانے کی شرعاً اجازت نہیں، کیونکہ یہ جُوا ہے جس میں مسلمان کو نفع ملنا غالب نہیں، بلکہ جہاں زائد رقم سے فائدہ حاصل ہونے کا امکان ہے، وہیں سارا مال چلے جانے اور نقصان ہونے کا بھی امکان ہے اور ایسا عقدِ فاسد جس میں مسلمان کے نقصان کی صورت ہوسکتی ہو،تو وہ مسلمان اور کافر کے درمیان بھی جائز نہیں ہوتا، ہاں جو مجبور ہے وہ معذور ہے،اور اس کا حکم اوپر بیان کردیا گیا ہے۔
جوئے کے ناجائز و حرام اور بہت بڑے گناہ ہونے کے بارے میں رب تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿یَسْـئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا﴾ترجمہ کنز العرفان: ’’آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تم فرمادو: ان دونوں میں کبیرہ گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ دنیوی منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘(پارہ02،البقرۃ: 219)
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں، تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(پارہ70،المائدۃ:90)
مسند احمد کی حدیث مبارک ہے: ’’عن ابن عباس، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال:إن اللہ حرم علیکم الخمر والمیسر والکوبۃ وقال کل مسکر حرام‘‘ ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اﷲتعالیٰ نے شراب اور جوا اور کوبہ (ڈھول)حرام کیااور فرمایا:ہر نشے والی چیز حرام ہے۔(مسند احمد، جلد4، صفحہ381، مؤسسة الرسالہ، بیروت)
تبیین الحقائق میں ہے: ”القمار من القمر الذی يزاد تارة، وينقص اخرى، وسمي القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه، ويجوز ان يستفيد مال صاحبه۔۔۔ وهو حرام بالنص“ ترجمہ: قمار قمر سے مشتق ہے، جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی کم ہوتا ہے، قمار کو قمار اس لیے کہا جاتا ہے کہ جوئے بازی کرنے والو ں میں سے ہر ایک کے لیے یہ امکان ہوتا ہے کہ اس کا مال ،دوسرے کے پاس چلا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے کا مال حاصل کرلے ،اور یہ نص کی وجہ سے حرام ہے۔(تبیین الحقائق، جلد6، صفحه227، مطبوعه قاهرة)
مبسوط سرخسی میں ہے: ’’ثم ھذا تعلیق استحقاق المال بالخطر وھو قمار والقمار حرام فی شریعتنا‘‘ ترجمہ: پھر یہ مال کے مستحق بننے کو خطرے پر معلق کرنا ہے،اور یہ جوا ہے اور جوا ہماری شریعت میں حرام ہے۔(مبسوط سرخسی، جلد7، صفحہ76، دارالمعرفہ، بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فتاو ی رضویہ میں فرماتے ہیں: ”یہ نراقمارہے۔ اس میں ایک حد تک روپیہ ضائع بھی جاتاہے اوروہ منافع موہوم، جس کی امیدپردَین اگر ملے بھی، توکمپنی بیوقوف نہیں کہ گرہ سے ہزارڈیڑھ ہزاردے، بلکہ وہ وہی روپیہ ہوگاجواوروں کاضائع گیا اوران میں مسلمان بھی ہوں گے، تو کوئی وجہ اس کی حلت کی نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ381، رضا فاؤ نڈ یشن، لاھور)
مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ہر قسم کا بیمہ ناجائز ہے۔ اسلام کا قاعدہ یہ ہے کہ جو کسی کا مالی نقصان کرے گا وہی ضامن ہو گا، اور بقدر نقصان تاوان دے گا ، قرآن کریم میں ہے: ﴿ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُم﴾ (یعنی جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کر لو (لیکن) اسی قدر جتنی زیادتی اس نے تم پر کی ہو)(سورہ بقرہ، پارہ2، آیت194) لہٰذا چوری،ڈکیتی، آگ لگنے اور ڈوبنے وغیرہ کا بیمہ ناجائز ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب مال کا نقصان انشورنس کمپنی نے نہیں کیا، تو وہ تاوان کیوں دے گی؟“(وقار الفتاوی، جلد1، صفحہ240، بزم وقار الدین، کراچی)
اگر ایسا ملک ہو جہاں انشورنس کروانا لازمی ہو، اور اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو،تو وہاں ضرورت کے پیش نظر انشورنس کروانے کی اجازت ہوگی،الاشباہ والنظائر میں ہے: ”الضرورات تبیح المحظورات“ ترجمہ: ضرورتیں ممنوع امور کو جائز کر دیتی ہیں۔(الاشباہ والنظائر، صفحہ87، مطبوعہ کراچی)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے: ’’لو اضطر إلى دفع رشوة لإحياء حقه جاز له الدفع‘‘ ترجمہ: اگر کوئی شخص اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے رشوت دینے میں مجبور ہو، تو اس کے لیے رشوت دینا جائز ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد7،صفحہ266،دار المعرفہ،بیروت)
مگر اس صورت میں بھی پالیسی ہولڈر کو انشورنس کمپنی سے اپنی جمع کروائی گئی رقم سے زائد رقم کا علاج ،یا کار رپئیرنگ کا نفع حاصل کرنا ، ناجائز و حرام رہے گا کہ یہ باطل طریقے سے کسی کے مال کو حاصل کرنا ہے،جس کی ممانعت قرآن عظیم میں وارد ہے۔ چنانچہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَاْکُلُوْۤا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’ اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔‘‘(پارہ02، البقرۃ، آیت: 188)
تفسیر قرطبی میں ہے :’’والمعنی:لا یاکل بعضکم مال بعض بغیر حق ،فیدخل فی ھذا :القمار والخداع والغصوب۔۔ وغیر ذلک‘‘ ترجمہ: اور(آیت کا) معنی یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی ناحق طریقے سے دوسرے کا مال نہ کھائے، لہذا اس (باطل طریقے سے مال کھانے میں) جوا، دھوکادہی، غصب وغیرہ سب داخل ہیں(اور ان سب کے ذریعے دوسروں کا مال کھانا حرام ہے)۔(تفسیر قرطبی، جلد2، صفحہ338، دار الكتب المصرية، القاهرة)
آیت کی تفسیرمیں صدرالافاضل حضرت علامہ مولانامفتی نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا، خواہ لوٹ کر یا چھین کر، چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔‘‘(تفسیرخزائن العرفان، سورۃ البقرہ، پارہ02،آیت188، صفحہ63، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
کافر سے برضائے کافر جوئے میں زائد رقم و زائد منافع کا حصول شرعاً جائز ہےکہ کافر حربی کا مال مسلمان کے لیے مباح ہے، چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں :’’یہاں تک کہ علماء نے تحصیلِ مال مباح جس میں پہلے سے اس کا کوئی حق مستقر نہیں بحیلہ نام طرق ممنوعہ مثل رباوقماروغیرہماجائز رکھی بشرطیکہ وہ طریقہ صاحب مال کی رضامندی سےبرتا گیایعنی غدر سے پاک وجدا ہو’’کما نصواعلیہ فی ربا المستامن و مقامرۃ الاسیر فی ردالمحتار عن السیر الکبیرو شرحہ اذادخل المسلم دار الحرب بامان فلا باس بان یاخذ منھم اموالھم بطیب انفسھم بای وجہ کان لانہ انما اخذ المباح علی وجہ عری عن الغدر فیکون طیبا لہ والاسیر و المستامن سواء حتی لو باعھم درھما بدرھمین او میتۃ بدراھم أو اخذ مالامنھم بطریق القمار فذٰلک کلہ طیب لہ‘‘ ملخصاً۔ جیساکہ فقہاء نے مستامن کے سود اور قیدی کے جوا کے بارے میں ا س پر نص فرمائی ہے، ردالمحتار میں سیر کبیراور اس کی شرح کے حوالے سے مذکور ہے جب کوئی مسلمان امان لے کر دارالحرب میں داخل ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ حربیوں کا مال ان کی رضامندی سے کسی بھی طریقے سے لے ،کیونکہ اس نے مال مباح ایسے طریقے سے لیا جو کہ دھوکہ سے خالی ہے، لہٰذا یہ اس کےلئے حلال ہے، قیدی اور مستامن برابر ہیں ، یہاں تک کہ اگر کسی نے ان پر دو درہموں کے عوض ایک درہم بیچا، یا کچھ درہموں کے عوض مردار بیچا، یا جوئے کے ذریعے ان کا مال لے لیا تو یہ سب اس کے لئے حلال ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ310، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن کفارسے غدر (دھوکا) و بدعہدی کیے بغیر ان کامال لینے کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں: ”جوکافر نہ ذمی ہونہ مستامن سواغدر(دھوکا) بدعہدی کے کہ مطلقاً ہر کافرسے بھی حرام ہے ، باقی اس کی رضا سے اس کا مال جس طرح ملے، جس عقد کے نام سے ہو، مسلمان کے لیے حلال ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد17 صفحہ348، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صاحب وجاہت اور دیندار افراد کو کافر کمپنی سے حاصل ہونے والے منافع حاصل کرنے سے بچنا چاہئےتا کہ لوگ انہیں برے نام سے مشہور نہ کریں،جیسا کہ فتاوی رضویہ ہی میں مزید فرمایا: ’’ہاں جو مال غیر مسلم سے کہ نہ ذمی ہو نہ مستامن بغیر اپنی طرف سے کسی غدر اور بدعہدی کے ملے، اگرچہ عقود فاسدہ کے نام سے اسے اسی نیت سے، نہ بہ نیت ربا وغیرہ محرمات سے،(تو وہ مال ) لینا جائز ہے، اگرچہ وہ دینے والا کچھ کہے یا سمجھے، کہ ا سکے لئے اس کی نیت بہتر ہے ،نہ کہ دوسرے کی، لکل امرء ما نوی (ہرشخص کیلئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی)۔پھر بھی جس طرح برے کام سے بچنا ضرور ہے، برے نام سے بچنا بھی مناسب ہے ایاک وبالسوء الظن (بدگمانی سے بچ۔)‘‘(فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ 325، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مسلمان اور کافر کے درمیان عقد فاسد میں یہ شرط ہے کہ وہ عقد مسلمان کے لیے فائدہ مند ہو،ورنہ اگر مسلمان کے نقصان کا پہلو ہو تو جائز نہیں، چنانچہ رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے: ”والقمار یفضی الی أن یکون مال الخطر للکافر بأن یکون الغلب لہ فالظاھر أن الاباحۃ بقید نیل المسلم الزیادۃ وقد ألزم الأصحاب في الدرس أن مرادهم في حل الربا والقمار ما إذا حصلت الزيادة للمسلم نظرا إلى العلة“ ترجمہ: جوئے میں(کبھی) خطرے والا مال کافر کا ہوجاتا ہے، اس طور پر کہ غلبہ اسے حاصل ہوجاتا ہے، تو ظاہر یہ ہے کہ(جوئے کا) حلال ہونا مسلمان کو اضافی مال ملنے کی قید کے ساتھ ہے۔ اور اصحاب نے درس میں اس بات کا التزام کیا ہے کہ فقہاء کے (مسلمان اور کافر کے درمیان) سود او ر جوئے کو حلال کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب اضافی مال مسلمان کو حاصل ہو ، علت کی طرف نظر کرتے ہوئے۔(رد المحتار علی الدرالمختار، جلد7، باب الربا، صفحہ442، دار المعرفۃ، بیروت)
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی امجدیہ میں انشورنس کی ایک صورت کا حکم بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں : ”یہاں دو صورتیں ہیں: مرجاتے ہیں تو ورثہ کو پوری وہ رقم جو معین کی گئی ہے ملتی ہے، اگرچہ کل رقم جمع نہ کی ہو اور یہ ایک صورت فائدہ کی ہے، مگر دوسری صورت کہ کسی وجہ سے رقم جمع کرنا بند کردیا ،تو جو کچھ جمع کیا ہے وہ بھی پورا نہیں ملتا ،یہ صورت سراسر نقصان کی ہے اور کفار سے اس طرح پر عقد فاسد کے ذریعہ رقم حاصل کرنے میں جواز اُسی وقت ہے جبکہ نفع مسلم کا ہو۔“(فتاوی امجدیہ، جلد3، صفحہ238، مکتبہ رضویہ، کراچی)
بہار شریعت میں ہے:’’عقد فاسد کے ذریعہ سے کافر حربی کا مال حاصل کرنا ممنوع نہیں یعنی جو عقد مابین دو مسلمان ممنوع ہے اگر حربی کے ساتھ کیا جائے تو منع نہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ عقد مسلم کے لیے مفید ہو۔‘‘(بھار شریعت، جلد 2، حصہ11، صفحہ 775، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم