
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-8985
تاریخ اجراء:02محرم الحرام 1446ھ/09 جولائی 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ بعض لوگ جانوروں کے مرنے کے بعد حنوط کروا لیتے ہیں اور گھر میں رکھ لیتے ہیں،تو کیا حنوط کیے ہوئے جانور کو گھر میں زینت کے لیے سجا کر رکھ سکتے ہیں؟ نیزان کی خریدو فروخت کے بارے میں کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نفس مسئلہ کا جواب جاننے سے پہلے چند بنیادی باتیں سمجھ لینا ضروری ہے۔
(1)حَنُوط صرف جانوروں(Animals)میں نہیں،بلکہ پرندوں(Birds)، رینگنے والوں جانوروں (Reptiles) مگرمچھوں،سانپ، وغیرہ کی بھی کی جاتی ہے۔حَنُوط کاری میں یہ ہوتا ہےکہ جانوروں کے اندر سے گوشت، پوست، وغیرہ نکال کراسی کھال میں بھوسہ، کاٹن،روئی، وغیرہ بھر کر ان پر مختلف کیمکلز،کلرز لگائے جاتے ہیں اور مکمل جانور تیار کیا جاتا ہے،جودیکھنے میں بالکل زندہ جانور کی طرح لگتا ہے،عموماً حَنُوط کاری پورے(سالم) مردہ جانورں میں ہی کی جاتی ہے،تاہم کچھ لوگ مکمل جانور کی بجائے صرف جانور کی گردن سے سرتک کے حصہ کو جیساکہ یاک، ہرن، مارخوروغیرہ کے سر کو یا ہاتھی کے سینگ کوبھی حنوط کروا کر لگاتے ہیں۔
(2)جاندار کی تصویر کی تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں:(١)مجسمہ سازی کرنا۔ (٢)ہاتھ سے صورت کشی کرنا، جسے "دستی تصویر" کہتے ہیں۔ (٣)مشین کے ذریعہ جاندار کے عکس کو محفوظ کرنا،اسے عکسی تصویر کہا جاتا ہے۔(ماخوذ از جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے،ص169) اور شریعتِ اسلامیہ میں جاندار کی تصویر کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں مضاہات لخلق اللہ یعنی تخلیقِ الہٰی سے مشابہت پائی جاتی ہے،یعنی انسان مجسم، مسطح یا عکس نُماایسی چیز بناتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کسی جاندار مخلوق کے مشابہ ہوتی ہےاور یہ بات رب تبارک و تعالیٰ کے غضب و جلال کا سبب ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کا عنصر پایاجاتا ہے،شارحین حدیث اور فقہائے کرام نے جہاں جہاں تصویر کی حرمت بیان کی وہاں احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس کی علت یہ بیان کی کہ تصویر سازی اور تصویر کشی میں اصل، تخلیقِ الٰہی کے مشابہ کسی چیز کی بناوٹ اور تشکیل پائی جاتی ہے،لہٰذا جہاں جہاں یہ صورت متحقق ہو گی،وہاں تصویر سازی یا تصویر کشی کا حکم بھی لگے گا اور جہاں ایسی صورت نہیں ہوگی، وہاں ممانعت کا حکم بھی نہیں ہوگا۔
اس تفصیل کے بعدپوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ جانوروں کی حنوط کاری میں تصویر سازی یا مجسمہ سازی نہیں ہوتی،بلکہ حنوط کاری کرنے والا فقط مردہ جانور کی کھال میں،کاٹن،یا روئی وغیرہ بھر کر اس کی اصل ہیئت کو برقرار رکھتا ہے،باقاعدہ ایک شکل و صورت والے جاندار کی تشکیل نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے جانور کی کھال میں بھوسہ بھر دینے سے وہ مجسمہ نہیں بن جاتا،مزید یہ کہ یہاں تصویر کی ممانعت کی علت مضاہات لخلق اللہ بھی نہیں پائی جاتی، کیونکہ یہ تو عین خلق الٰہی ہے کہ اِس میں اللہ کی پیدا کی ہوئی چیز کو اس کی حالت پر باقی رکھا جاتا ہے، تو کسی طور پر بھی اس پر مجسمہ سازی یا تصویر کشی کے احکام لاگو نہیں ہوتے،لہٰذا حنوط کاری کرنا،حنوط شدہ جانوروں اور پرندوں کی خرید و فروخت کرنا اور انہیں گھر میں رکھنا، جائز ہے۔
تصویر سازی کی ممانعت کے متعلق صحیح بخاری کی حدیثِ پاک میں ہے:”أشد الناس عذابا يوم القيامة الذين يضاهون بخلق اللہ“ ترجمہ: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو دیاجائے گا، جو اللہ پاک کی تخلیق سے مشابہت کرتے ہیں۔(صحيح البخاري،جلد، صفحہ16، مطبوعہ سلطانیہ)
مذکورہ بالا حدیث پاک کے تحت شرح المصابيح لابن الملك،لمعات التنقیح،مرقاة المفاتیح اور دیگر شروحِ احادیث میں ہے، واللفظ للمرقاۃ:”(بخلق اللہ):أي يشابهون عملهم التصوير بخلق اللہ،قال القاضي:أي يفعلون ما يضاهي خلق اللہ أي مخلوقه،أو يشبهون فعلهم بفعله،أي في التصوير والتخليق“ ترجمہ: یعنی وہ اپنے تصویر سازی کے عمل میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے مشابہت کرتے ہیں۔قاضی نے فرمایا: یعنی ایسے افعال کرتے ہیں جو اللہ پاک کی تخلیق کے مشابہ ہوتے ہیں یا اپنے فعل کے ذریعے اللہ پاک کے فعل سے مشابہت کرتے ہیں یعنی تصویر کشی اور مجسمہ سازی میں۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد7، صفحہ2851، مطبوعہ دار الفكر،بیروت)
شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1052ھ) لکھتےہیں:”تصویر بنانے والے جو تصویر بناتے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے صورت پیدا کی ہے،اس لیے انہیں عذاب دے گا کہ وہ ان میں جان کیوں نہیں ڈالتے۔“(اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ، جلد5، صفحہ 689، مطبوعہ فرید بک سٹال)
تصویر سازی کی ممانعت در حقیقت تشکیل کی بنا پر ہے، لہٰذا جہاں جہاں تشکیل کی صورت آئے گی، وہاں ممانعت کے احکام ہوں گے، چنانچہ تصویر سازی کے متعلق صحیح بخاری کی ایک حدیثِ پاک کے تحت شیخ محقق علیہ الرحمۃ "لمعات التنقیح" میں لکھتے ہیں:”(فليخلقوا ذرة) كأنه قال:التصوير ليس بخلق حقيقة، بل هو تركيب المواد التي خلقها اللہ تعالى فيتوهم ويشتبه بما يخلق“ترجمہ:"(حدیثِ پاک کے الفاظ:) چاہیے کہ وہ ایک ذرے کو پیدا کریں"گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تصویر و مجسمہ سازی حقیقتاً تخلیق(پیدا کرنا) نہیں ہے،بلکہ ان اجزا کو جمع کر کے تشکیل دینا ہے،جن کو اللہ پاک نے پیدافرمایا، تو تصویر سازی کرنے والا اس کے ذریعے اس چیز کے اللہ کی مخلوق(اور پیدا کردہ) ہونے کاوہم او رشبہ ڈالتا ہے۔(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، جلد7، صفحہ459، مطبوعہ دارالنور، دمشق)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”غیر حیوان کی تصویربت نہیں، بت ایک صورت حیوانیہ مضاہات خلق اﷲ میں بنائی جاتی ہے تاکہ ذوالصورۃ کے لیے مرأتِ ملاحظہ ہو اور شک نہیں کہ ہرحیوانی تصویرمجسّم خواہ مسطح کپڑے پرہویاکاغذ پردستی ہویاعکسی اس معنی میں داخل ہے،توسب معنی بت میں ہیں اور بت اﷲعزوجل کامبغوض ہے توجوکچھ اس کے معنی میں ہے،اس کا بلا اہانت گھرمیں رکھناحرام اور موجبِ نفرتِ ملائکہ کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد24، صفحہ634، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اِسی طرح ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:”وچوں علت تحریم مشابہت بخلق الٰہی ست تفاوت نمی کند کہ بخامہ کشند یاعکس رامنطبع سازند زیراکہ علت ہمہ جاحاصل ست‘‘یعنی جب حرام ہونے کی علت اوروجہ بناوٹ الٰہی کے ساتھ مشابہت ہے،تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قلم سے تصویربنائی جائے یاعکسی چھاپ سے، کیونکہ یہ علت سب جگہ موجود ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد24، صفحہ638، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ان تمام تر جزئیات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تصویر سازی و تصویر کشی کرنا اسی صورت میں کہلائے گا جب مخلوق الٰہی کے مشابہ کسی چیز کی تشکیل ہوگی،البتہ جب عین مخلوق الٰہی یعنی اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیز کو کسی طرح کیمیکلز وغیرہ لگا باقی رکھا جائے،تو اس پر تصویر کی ممانعت والے احکام نہیں آئیں گے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم