
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3754
تاریخ اجراء: 15 شوال المکرم 1446 ھ/14 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
جانور کے ساتھ بدفعلی کرلی تو اب اس کا دودھ پینا کیسا؟ اور ایسا کرنے والے کےلئے کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جس جانور سے بدکاری کی گئی ہواس کادودھ پینامکروہ ہے ، ایسے جانور سے زندہ اور مردہ دونوں حالتوں میں نفع اٹھانا مکروہ ہے، ایسے جانور کو ذبح کر کے اس کا گوشت جلاکر اسے ختم کردیا جائے۔ اور جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والا شخص سخت گنہگار ہے، اس پر سچی توبہ لازم ہے، سچی توبہ کا یہ مطلب ہے کہ گناہ پر اس لئے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نافرمانی تھی نادم وپریشان ہو کر فورا چھوڑدے اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پختہ ارادہ کرے اور جو چارہ کار اس گناہ کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہو بجالائے۔ اس طریقے سے توبہ کرنے پر امید ہے کہ اللہ تعالی اس گناہ کو مٹادےگا، ان شاء اللہ عزوجل۔
سنن ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے
’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: من وجدتموہ وقع علی بہیمۃ فاقتلوہ، و اقتلوا البہیمۃ، فقیل لابن عباس: ما شأن البہیمۃ؟ قال: ما سمعت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ذلک شیئا، و لکن أری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کرہ أن یؤکل من لحمہا، أو ینتفع بہا، و قد عمل بہا ذلک العمل‘‘
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم جس آدمی کو چوپائے کے ساتھ وطی کرتا پاؤ تو اس آدمی اور جانور دونوں کو قتل کر دو، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا گیا کہ جانور کو قتل کرنے کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا: میں نے اس کی وجہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو نہیں سنی لیکن میراخیال ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو ناپسند فرمایا ہے کہ اس جانور کا گوشت کھایا جائے یا اس سے نفع حاصل کیا جائے جبکہ اس کے ساتھ یہ عمل کیاگیاہے۔ (سنن ترمذی، باب ما جاء فیمن یقع علی البہیمۃ، حدیث 1456، ج 4، ص 56، الناشر: شركة مكتبة الحلبي - مصر)
درمختار میں ہے
’’و تذبح ثم تحرق و یکرہ الانتفاع بھاحیۃ و میتۃ‘‘
ترجمہ: جس جانور سے وطی کی گئی ہے اسے جانور کو ذبح کرکے جلادیا جائے کیونکہ اس جانور مردہ یا زندہ سے انتفاع حاصل کرنا مکروہ ہے۔
اس کے تحت ردالمحتار میں ہے
’’لقطع امتداد التحدث بہ کلما رئیت و لیس بواجب کما فی الہدایۃ و غیرہا، و ہذا إذا کانت مما لا تؤکل، فإن کانت تؤکل جاز أکلہا عندہ. و قالا: تحرق أیضا‘‘
ترجمہ:جب اس جانور کو لوگ دیکھیں گے تو اس کے متعلق باتیں کریں گے اس سے بچنے کے لئے اس جانور کو ذبح کر کے جلادینا چاہئے، اور یہ جلانا واجب نہیں جیسا کہ ہدایہ وغیرہ میں ہے، یہ حکم اس جانور کے متعلق ہے جس کو کھایا نہیں جاتا، اور اگراس کو کھایا جاتا ہوتو کھانا جائزہے، امام صاحب کے نزدیک اور صاحبین نے فرمایا اس کو جلابھی دیا جائے۔(در مختار مع رد المحتار، باب الوطیٔ الذی یوجب و الذی لایوجبہ، ج 4، ص 26، دار الفکر، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”وہ جانور ذبح کرکے فنا کردیا جائے گوشت کھال جلائیں، پالانہ جائے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 627، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
اللہ کریم جل وعلا ارشاد فرماتا ہے:
”قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا“
ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے۔ (پارہ 24، الزمر: 53)
فتاوی رضویہ شریف میں ہے: ”سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شیئ بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالہ کو کافی ووافی ہے۔ کوئی گناہ ایسانہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر، سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پر اس لئے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نافرمانی تھی نادم وپریشان ہو کر فورا چھوڑدے اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پورا عزم کرے جو چارہ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہو بجالائے مثلا نماز روزے کے ترک یا غصب، سرقہ، رشوت، ربا سے توبہ کی توصرف آئندہ کے لئے ان جرائم کا چھورڈینا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو نماز روزے ناغہ کئے ان کی قضا کرے جو مال جس جس سے چینا ، چرایا، رشوت، سود میں لیا انھیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کوواپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے توا تنا مال تصدق کردے اور دل میں نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگرتصدق پرراضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انھیں پھیردوں گا۔“ (فتاوی رضویہ شریف، جلد 21، صفحہ 121 ،122، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم