
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں عام طور پر سیخ کباب والے سے مرغی کی دُمچی ملتی ہے ۔ جسے بہت سے لوگ شوق سے کھاتے ہیں۔ سوال یہ پوچھنا ہےکہ کیا اس کا کھانا ، جائز ہے ؟ کیونکہ بعض لوگوں سے سنا ہے کہ اس کا کھانا جائز نہیں ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مرغی کی دُمچی حلال ہے او راسے کھانا ، جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ۔
در اصل دمچی کے حلال یا حرام ہونے کا حکم اس بات پر منحصر ہے کہ یہ دمچی ”مرغی“ کا کون سا مقام ہے ؟ اگر تو یہ ثابت ہو جائے کہ یہ مرغی کی دُبُر یعنی بیٹ نکلنے کی جگہ ہے تو پھر اس کا ناجائر ہونا بالکل واضح ہے ، کیونکہ دُبُر خبیث و مکروہ اشیاء میں سے ہے جن کا کھانا ، جائز نہیں ، لیکن مرغی فروش حضرات اور دیگر ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق جو حقیقت سامنے آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ دمچی ، مرغی کی دُبُر (بیٹ کا مقام) نہیں بلکہ اس سے اوپر مرغی کی دم کی چربی اور ہڈی پر مشتمل حصہ ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے اسے ”دُمچی“ کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب بنتا ہے ”چھوٹی دم“اور انگلش میں بھی مرغی کی دمچی کو ”Chicken Tail “ کہا جاتا ہے یعنی” مرغی کی دم“دمچی کے گوشت پر مرغی کی دم کے پَر لگے ہوتے ہیں جسے صاف کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے اس لئے عموما گلی محلوں میں مرغی بیچنے والے اس حصے کو نکال کردیتے ہیں۔مرغی یا اس طرح کے پرندوں کی دم میں موجود چھوٹی سی ہڈی کو پائیگو اسٹائل( Pygostyle) کہا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق مزید معلومات کے لئے وکی پیڈیا کا یہ پیج وزٹ کیا جا سکتا ہے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Pygostyle
اس کے علاوہ دار الافتاء اہلسنت سے جاری ہونے والی کتاب ” گوشت کے وہ حصے جن کا کھانا منع ہے“ کے آخر میں چکن کی دمچی اور دبر کا فرق تصاویر کی شکل میں بھی واضح کیا گیا ہے ۔
جب مذکورہ حقیقت واضح ہوگئی تو اب دمچی کا حکم بھی واضح ہوگیا کہ دمچی کھانا جائز ہے کیونکہ حلال ذبح شدہ جانور کی دم کھانا جائز ہوتا ہے چاہے وہ چھوٹی ہویا بڑی ۔دُم بھی جانور کے گوشت کا کھایا جانے والا حصہ ہوتا ہے ۔اسے ممنوع یا مکروہ اجزاء میں شمار نہیں کیا گیا ہے، لہٰذا اس کے کھانے میں حرج نہیں ۔ ہاں کوئی شخص طبعی طور پر پسند نہ ہونے کی وجہ سے نہ کھائے تو یہ اس کی مرضی ہے ، لیکن جو چیز شریعت کی طرف سے حرام نہیں ہے اسے خود سے حرام کہنے یا سمجھنے کی اجازت نہیں ۔
ماکول اللحم جانور جب شرعی طریقے سے ذبح کر لیا جائے تو اب اس مذبوح ماکول اللحم جانور میں اصل حلت ہے۔جب تک کسی جزو کے متعلق عدم جواز کی دلیل ثابت نہ ہو تب تک اس کا کھانا اس اصل کے مطابق حلال ہی شمار ہوگا۔چنانچہ اللہ کا نام لے کر جو جانور ذبح کیا گیا ہو اس کے متعلق قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿ وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ ﴾
ترجمہ کنز الایمان:’’ اور تمہیں کیا ہوا کہ اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا وہ تو تم سے مُفَصَّل بیان کرچکا جو کچھ تم پر حرام ہوا۔‘‘ (سورہ انعام، آیت: 119)
اس آیت کے تحت صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ” اس سے ثابت ہوا کہ حرام چیزوں کا مفصّل ذکر ہوتا ہے اور ثبوتِ حُرمت کے لئے حکمِ حُرمت درکار ہے اور جس چیز پر شریعت میں حُرمت کا حکم نہ ہو وہ مباح ہے ۔ “ (خزائن العرفان ، تحت الایۃ)
علامہ ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ مذبوح جانور میں حلت کا اصل ہونا بیان کرتے ہوئے فتاوی حمادیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
” وجميع ما كان في المذبوح المأكول سوى ما كره النبي صلی اللہ علیہ و سلم ، وهو سبعة أشياء ۔۔۔۔۔ وما سوى ذلك فهو مباح على اصله لان الاصل في الاشياء الاباحة كذا في الفتاوى الحمادية۔“
یعنی ذبح کیے ہوئے کھائے جانےوالے جانور کا سب کچھ مباح ہے سوائے اس کے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ناپسند فرمایا، وہ سات چیزیں ہیں۔ کیونکہ اشیاء میں اصل اباحت ہے ۔ ایسا فتاویٰ حمادیہ میں ہے۔(فاكهة البستان، ص172و173، دار الکتب العلمیہ،بیروت)
درمختار اور اس کی شرح طوالع الانوار میں ہے:
وما فی الھلالین من الدر”(إذا ما ذكيت شاة فكلها ... سوى سبع ففيهن الوبال) اي ففي اكلهن الوبال اي الاثم وهذا يشير الي الكراهة التحريمية او الى الحرمة وهي في الدم مسلمة وفيما عدها لا تتقر الا بعد تقرر خبثها “
جب کوئی بکری ذبح کی جائے تو اس کا گوشت کھاؤ... سوائے سات چیزوں کے، کیونکہ ان میں وبال ہے۔ مطلب ان کو کھانے میں وبال یعنی گناہ ہے۔ اور یہ تحریمی کراہت یا حرمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خون کے بارے میں تو حرمت مسلّم ہے۔ اور باقی اشیاء کے بارے میں خبث ثابت ہونے کے بعد ہی حرمت ثابت ہو سکتی ہے۔(طوالع الانوار شرح درمختار، كتاب الكراهية، مخطوط)
درمختار کی عبارت ” فكلها ... سوى سبع “ اور صاحب طوالع الانوار کا یہ فرمان” لا تتقر الا بعد تقرر خبثها “ اس بات کی طرف واضح رہنمائی ہے کہ ماکول اللحم مذبوح جانور کے کسی جزو میں حرمت یا کراہت تحریمی کا ثبوت ، دلیل و علتِ تحریم کے بعد ہی ہو سکتا ہے ورنہ وہ اصل اباحت پر ہوگا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: محمد ساجد عطاری
مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: NRL-0275
تاریخ اجراء: 28 ذیقعدۃ الحرام 1446 ھ/26 مئی 2025 ء