دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
لڑکا لڑکی سے ریلیشن نہ رکھے، بلکہ صرف فرینڈ شپ کرے، تو ایسا کرنا کیسا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اجنبی لڑکے اور لڑکی کا خالی فرینڈ شپ کرنا بھی ناجائز وحرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، یہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے: مثلاً اجنبی لڑکی کااجنبی لڑکے کے سامنے بے پردہ ہونا،بلا ضرورت بے تکلفی سے، مائل کرنے والے انداز میں بات چیت کرنا، یا بے حیائی پر مبنی باتیں کرنا ، تنہائی اختیارکرنا، ناجائز دوستی برقرار رکھنے کے لیے تحائف کا لین دین کرنا، جوکہ رشوت ہے اوررشوت لینا دینا حرام ہے۔ اور پھر نفس سے پر اعتماد کرنا، بڑے جھوٹے پراعتماد کرنا ہے، شروع شروع میں نفس یہی کہتا ہے کہ خالی فرینڈشپ ہی ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ ناجائز ریلیشن (زنا) کی طرف بھی لے جاتا ہے۔
پردے کے متعلق قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ- اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(30) وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-
ترجمہ کنز الایمان: مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے۔ اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں، مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ (القرآن، پارہ 18، سورۃ النور، آیت: 30، 31)
امام ابن حجر ہیتمی الزواجر عن اقتراف الکبائر میں نقل فرماتے ہیں:
أخرج الشيخان وغيرهما عن أبي هريرة رضي اللہ عنه عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال: «كتب على ابن آدم نصيبه من الزنا مدرك ذلك لا محالة؛ العينان زناهما النظر، و الأذنان زناهما الاستماع، واللسان زناه الكلام، واليد زناها البطش، والرجل زناها الخطا، و القلب يهوى و يتمنى و يصدق ذلك الفرج أو يكذبه»۔۔۔۔ و الطبراني بسند صحيح: «لأن يطعن في رأس أحدكم بمخيط» - أي بنحو إبرة أو مسلة وهو بكسر أوله وفتح ثالثه - «من حديد خير له من أن يمس امرأة لا تحل له» . والطبراني: «إياكم والخلوة بالنساء، والذي نفسي بيده ما خلا رجل بامرأة إلا دخل الشيطان بينهما، و لأن يزحم رجلا خنزير متلطخ بطين أو حمأة - أي طين أسود منتن - خير له من أن يزحم منكبه امرأة لا تحل له». و الطبراني: «لتغضن أبصاركم ولتحفظن فروجكم أو ليكشفن اللہ وجوهكم»
ترجمہ: امام بخاری اور امام مسلم وغیرہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ابنِ آدم پر زنا کا جو حصہ لکھ دیا گیا ہے وہ اسے ضرور پائے گا، آنکھوں کا زنا (ناجائزچیز کو) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا(ناجائز)سننا ہے، زبان کا زنا بولنا (یعنی گناہوں بھری گفتگو کرنا)ہے، ہاتھوں کا زنا (جسے پکڑنا ناجائز ہے، اس کو)پکڑنا ہے، پاؤں کا زنا (جس کی طرف چلنا ناجائز ہے، اس کی طرف)چلنا ہے اور دل زنا کی خواہش اور تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ "طبرانی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے، تو یہ اس سے بہتر ہے، کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے، جو اس کے لئے حلال نہیں۔" اور طبرانی نے روایت کیا کہ: "عورتوں کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے سے بچو! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جو شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے تو ان کے درمیان شیطان آجاتا ہے اور کسی شخص کو مٹی اور سیاہ بدبودار کیچڑ میں لت پت خنزیر روندے، تو یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے ایسی عورت کے کندھوں کو چھوئیں جواس کے لئے حلال نہیں۔" اور طبرانی نے روایت کیا کہ: "تم یا تو اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو گے یاپھر اللہ عزوجل تمہاری شکلیں بگاڑ دے گا۔“ (الزواجر عن اقتراف الكبائر، جلد 2، صفحہ 3، مطبوعہ: بیروت)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألا لا یخلون رجل بإمرأۃ إلا کان ثالثھما الشیطان
ترجمہ: خبردار! کوئی شخص کسی عورت سے خلوت نہیں کرتا، مگر ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (سنن الترمذی، جلد 1، صفحہ 221، مطبوعہ: کراچی)
مذکورہ حدیث کے تحت علامہ علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
و المعنى يكون الشيطان معهما يهيج شهوة كل منهما حتى يلقيهما في الزنا
ترجمہ: مطلب یہ ہے کہ شیطان ان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے اور دونوں کی شہوت کو بڑھاتا رہتا ہے یہاں تک کہ دونوں کو بدکاری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب النظر، جلد 5، صفحہ 2056، حدیث نمبر 3118،دار الفکر، بیروت)
الزواجر عن اقتراف الکبائر میں حدیث پاک ہے
ایاکم والدخول علی النساء
ترجمہ: اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، جلد 2، صفحہ 4، مطبوعہ: بیروت)
علامہ بُرہان الدین مَرْغِینانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں
و لا یجوز ان ینظر الرجل الی الاجنبیۃ
ترجمہ: مرد کا اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے۔ (الھدایۃ، جلد 4، صفحہ460، مطبوعہ: لاہور)
الجوھرۃ النیرۃ میں ہے
تحرم الخلوة بالأجنبية و إن كان معها غيرها هكذا في الهداية لكن وجد في بعض الحواشي أن خلوة الرجل مع الأجنبية حرام و إن كان معه غيرها سواء كانت امرأة لرجل أو محرما أخرى له
ترجمہ: اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت حرام ہے، اگر چہ اس کے ساتھ کوئی اور عورت بھی ہو۔ اسی طرح ہدایہ میں ہے۔ لیکن بعض حواشی میں یوں ہے کہ مرد کی اجنبیہ عورت کے ساتھ تنہائی حرام ہے، اگر چہ مرد کے ساتھ اجنبیہ عورت کے علاوہ کوئی اور بھی ہو، چاہے وہ اسی مرد کی زوجہ ہو یا اس کی کوئی اور محرمہ ہو۔ (الجوھرۃ النیرۃ، کتاب الحج، جلد 1، صفحہ 150، مطبعہ خیریہ)
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں
نجيز الكلام مع النّساء للأجانب و محاورتهنّ عند الحاجة إلى ذلك، و لا نجيز لهنّ رفع أصواتهنّ و لا تمطيطها ولا تليینها و تقطيعها لما في ذلك من استمالة الرّجال إليهنّ وَتحريك الشَهوَات منهم و من ھذا لم تجز ان تؤذن المراۃ
ترجمہ: ہم وقتِ ضرورت اجنبی عورتوں سے کلام اور بات چیت کو جائز قرار دیتے ہیں، البتہ یہ جائز نہیں قرار دیتے کہ وہ اپنی آوازیں بلند کریں، گفتگوکو بڑھائیں، نرم لہجہ رکھیں یا مبالغہ کریں، کیونکہ اس طرح تو مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا ہے اور ان کی شہوات کوابھارنا ہے، اِسی وجہ سے تو عورت کا اذان دینا جائز نہیں۔ (رد المحتارعلی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 97، مطبوعہ: کوئٹہ)
رشوت کے متعلق مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
لعن النبی صلی اللہ علیہ و سلم الراشی و المرتشی و الرائش، یعنی الذی یمشی بینھما
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے رشوت دینے والے، رشوت لینے والے اوران دونوں کے درمیان معاملہ کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 4، صفحہ 444، مکتبۃ الرشد، الریاض)
البحر الرائق میں ہے
ما یدفعہ المتعاشقان رشوۃ یجب ردھا و لا تملک
ترجمہ: عاشق و معشوق آپس میں ایک دوسرے کو جو تحائف دیتے ہیں، وہ رشوت ہے، ان کا واپس کرنا واجب ہے، وہ ملکیت میں داخل نہیں ہوتے۔ (البحر الرائق، جلد 6، صفحہ 441، مطبوعہ: کوئٹہ)
ملفوظات اعلی حضرت میں ہے "اور اپنے نفس پر اعتماد کرنے والا بڑے کذّاب (یعنی بَہُت بڑے جھوٹے) پر اعتماد کرتا ہے،
اِنَّھَا اَکْذَبُ شَیْءٍ اِذَا حَلَفَتْ فَکَیْفَ اِذَا وَعَدَتْ
(کہ نفس اگر کوئی بات قسم کھا کر کہے تو سب سے بڑھ کر جھوٹا ہے، نہ کہ جب خالی وعدہ کرے)" (ملفوظات اعلی حضرت، ح 2، ص 277، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد علی عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4509
تاریخ اجراء: 10 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 02 دسمبر 2025ء