لاٹری کھیلنے کا شرعی حکم

لاٹری کھیلنے کا حکم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3771

تاریخ اجراء: 24 شوال المکرم 1446 ھ/23 اپریل 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   لاٹری کھیلنا کیسا ہے؟ جب لاٹری کا ٹکٹ خریدا جاتا ہے تو کوئی ہارتا ہے اور کوئی جیت جاتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   لاٹری کھیلنا شرعاً ناجائز و حرام او ر گناہ کا کام  ہے کہ اس میں اپنی رقم کو خطرے پر پیش کیا جاتا ہے کہ  یا تو لاٹری  جیت کر اپنی خرچ ہونے والی رقم سے زیادہ رقم وصول کرلی جاتی  ہے اور یوں دوسرے  کا مال بھی جیتنے والے  کے پاس آجاتا ہے، یا پھر  لاٹری  ہار کر اپنی   رقم  بھی ضائع ہوجاتی ہے اور یوں  اپنا مال بھی   دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے۔ یہ  قما ر یعنی   جُوا ہے  جو کہ شرعاً ناجائز و حرام ہے، قرآن و حدیث میں اس کی حُرمت و مذمت وارد ہے۔

   جوئے کے   بارے میں اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

   یَسْـئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَااِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُہُمَااَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا

   ترجمہ کنزالعرفان: آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تم فرمادو: ان دونوں میں کبیرہ گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ دنیوی منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے۔ (پارہ 02، سورۃ البقرۃ، آیت 219)

   مزید ارشاد باری تعالی ہے:

   یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ

   ترجمہ کنزالعرفان: اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (پارہ 70، سورۃ المائدۃ، آیت 90)

    مسند احمد کی حدیث مبارکہ ہے

   "عن ابن عباس، عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: إن اللہ حرم علیکم الخمر و المیسر و الکوبۃ و قال کل مسکر حرام"

   ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے شراب اور جوا اور کوبہ (ڈھول) حرام کیا اور فرمایا: ہر نشے والی چیز حرام ہے۔ (مسند احمد، حدیث 2625، جلد 4، صفحہ 381، مؤسسة الرسالة، بیروت)

   تبیین الحقائق میں ہے

   "القمار من القمر الذی يزاد تارة، و ينقص اخرى، و سمي القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه، و يجوز ان يستفيد مال صاحبه۔۔۔ و هو حرام بالنص"

   ترجمہ: قمار قمر سے مشتق ہے ، جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی کم ہوتا ہے، قمار کو قمار اس لیے کہا جاتا ہے کہ جوئے بازی کرنے والو ں میں سے  ہر ایک  کیلئے یہ امکان ہوتا ہے کہ اس کا مال، دوسرے کے پاس چلا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ  دوسرے کا مال حاصل کرلے، اور یہ نص کی وجہ سے حرام ہے۔(تبیین الحقائق، جلد 6، صفحه 227، مطبوعه: قاهرة)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم