
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا عورت میک اپ آرٹسٹ کا کورس کر سکتی ہے؟ نیز میک اپ آرٹسٹ کا کام کر سکتی ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عورت کے لیے جائزطریقے سے، شرعی حدودمیں رہتے ہوئے، جائززیب وزینت پرمشتمل میک اپ آرٹسٹ کا کورس کرنا بھی جائز ہے، اوراسی طرح انہی شرائط کے ساتھ ایسے میک اپ آرٹسٹ کا کام کرنا بھی جائز ہے۔
اور جہاں تک خلافِ شر ع امورہیں جیسے خوبصورتی کے لئے آئی بروز (Eyebrows) بنانا، مردانہ اسٹائل کے بال کاٹنا، ران (Thigh) اور پردے کی جگہوں کے بالوں کی صفائی کرنا، بالوں کو سیاہ رنگ کرنا وغیرہ تواس طرح کے تمام ناجائزامورکونہ توسیکھنے کی اجازت ہے اورنہ ان کاموں کوکرنے کی اجازت ہے۔
نیز کورس کرنے اور یہ کام کرنےاوران کے لیے آنے جانے میں اس چیز کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ کسی طرح کی بے پردگی نہ ہو، نامحرموں کے سامنےکپڑے ایسے تنگ وچست نہ پہنے کہ بدن کی ہیئت نظر آئے، یا ایسے نہ پہنے کہ اعضائے سترمیں سے کچھ بھی ظاہر ہو اور وہاں آنے جانے یا اس جگہ رہنے میں کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو، کسی نامحرم کے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے بھی تنہائی نہ ہو، یہ کورس کروانے والی صرف عورتیں ہی ہوں اور صرف عورتوں ہی کا میکپ وغیرہ کرنے کا کام کیا جائے۔
سنن ابی داؤد میں حضرتِ سیِدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے
"لعِنت الواصلۃ و المستوصلۃ و النامصۃ و المتنمّصۃ و الواشمۃ و المستوشمۃ من غیر داء"
ترجمہ: بال ملانے والی اور ملوانے والی اور ابرو کے بال نوچنے والی اورنو چوانے والی اور گودنے والی اور گودوانے والی پر لعنت ہے، جبکہ بیماری کی وجہ سے نہ کیا ہو۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 4170، ج 4، ص 78، مطبوعہ بیروت)
عورت کا مردانہ اسٹائل کے بال رکھنا مردوں سے مشابہت اختیار کرنا ہے، جبکہ حدیثِ پاک میں ہے
"لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، و المتشبهات من النساء بالرجال"
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے مشابہت بنانے والے مردوں اور مردوں سے مشابہت بنانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث 5885، ج 7، ص 159، دار طوق النجاۃ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ”عورت کو حرام ہے کہ اپنے بال تراشے کہ اس میں مردوں سے مشابہت ہے، یونہی مردوں کو حرام ہے کہ اپنے بال عورتوں کی طرح بڑھائیں اور وجہ دونوں جگہ وہی مشابہت ہے کہ حرام وموجبِ لعنت ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 22، صفحہ 688، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ران کے ستر (یعنی چھپانے کی چیز) ہونے سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’أما علمت أن الفخذ عورة‘‘ ترجمہ: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ران ستر (یعنی چھپانے کی چیز) ہے؟ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 4014، ج 4، ص 40، مطبوعہ بیروت)
اسی طرح ایک عورت کے لیے دوسری عورت کا ستر دیکھنے سے منع کرتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’لا ينظر الرجل إلى عرية الرجل ولا المرأة إلى عرية المرأة‘‘
ترجمہ: ایک مرد دوسرے مرد کے اور ایک عورت دوسری عورت کے ستر ( یعنی جسم کے جن حصوں کو شرعاً چھپانا لازمی ہے، ان) کو نہ دیکھے۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 4018، ج 4، ص 41، مطبوعہ بیروت)
ایک عورت دوسری عورت کے کس حصے کو دیکھ سکتی ہے؟ اس سے متعلق شیخ الاسلام علامہ علی بن ابو بکر المرغینانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’و ينظر الرجل من الرجل إلى جميع بدنه إلا ما بين سرته إلى ركبته۔۔۔ و تنظر المرأة من المرأة إلى ما يجوز للرجل أن ينظرإليه من الرجل‘‘
ترجمہ: ایک مرد دوسرے مرد کے تمام جسم کو دیکھ سکتا ہے، سوائے ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنے تک ( کہ اس حصے کو نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح) ایک عورت دوسری عورت کا وہی حصہ دیکھ سکتی ہے، جو ایک مرد دوسرے مرد کا حصہ دیکھ سکتا ہے۔(الھدایۃ، کتاب الکراھیۃ، جلد 4، صفحہ 369 ،370، مطبوعہ بیروت)
بالوں میں کالا خضاب لگانے والوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
”يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد، كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة“
ترجمہ: آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے، جو سیاہ خضاب لگایا کریں گے، جیسے کبوتروں کے پوٹے، وہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھ سکیں گے۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 4212، ج 4، ص 87،مطبوعہ بیروت)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: ”سیاہ خضاب مطلقا مکروہِ تحریمی ہے، مرد عورت، سر داڑھی، سب اسی ممانعت میں داخل ہیں۔“ (مرآۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 166، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
عورت کی ملازمت کے متعلق امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”یہاں پانچ شرطیں ہیں: (۱) کپڑے باریک نہ ہوں، جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ ستر کا کوئی حصہ چمکے۔ (۲) کپڑے تنگ و چست نہ ہوں، جو بدن کی ہیئات ظاہر کریں۔ (۳) بالوں یا گلےیا پیٹ یا کلائی یا پنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہوتا ہو۔ (۴) کبھی نا محرم کے ساتھ خفیف دیر کے لئے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو۔ (۵) اُس کے وہاں رہنے یا باہر آنے جانے میں کوئی مظنۂ فتنہ نہ ہو۔ یہ پانچوں شرطیں اگر جمع ہیں، تو حرج نہیں اور ان میں ایک بھی کم ہے، تو(ملازمت وغیرہ) حرام۔" (فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 248، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3843
تاریخ اجراء: 22 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 20 مئی 2025 ء