
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0421
تاریخ اجراء:16ربیع الاول1446ھ/21ستمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ مَردوں کے لئے ہیرے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے؟برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مردوں کے لئے صرف چاندی کی ایک انگوٹھی پہنناجائز ہے، جو ساڑھے چار ماشے (یعنی چارگرام374 ملی گرام) سے کم وزن کی ہو، مردانہ طرز کی ہو اور اس میں صرف ایک نگینہ لگا ہو، اس کے علاوہ ہر قسم کی انگوٹھی سے بچنے کا حکم ہے، ہاں اگر انگوٹھی کا حلقہ(رِنگ)چاندی کا ہو، اور اس میں ہیرے کاایک نگ لگا ہو، تو مذکورہ شرائط كی موجودگی میں ایسی انگوٹھی کا پہننا جائز ہے کیونکہ مردانہ انگوٹھی میں حلقہ چاندی کا ہونا ضروری ہے، باقی نگینہ کسی بھی دھات اور پتھر کا ہوسکتا ہے۔
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالاً“ چاندی کی انگوٹھی بناؤ اور اس کی چاندی ایک مثقال پوری نہ کرو۔(سنن أبي داود، ج 04، ص 144، رقم 4223، دار الكتاب العربي، بيروت)
صدر الشریعہ بدرالطریقہ مولانا محمد امجد علی اعظمی رحمۃاللہ تعالی علیہ بہارشریعت میں فرماتے ہیں :”مرد کو زیور پہننا مطلقا حرام ہے صرف چاندی کی ایک انگوٹھی جائز ہے، جو وزن میں ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو اور سونے کی انگوٹھی بھی حرام ہے۔۔۔ دوسری دھات کی انگوٹھی پہننا حرام ہے، مثلاً لوہا، پیتل، تانبا، جست وغیرہا۔ اگلے صفحہ پر فرماتے ہیں :انگوٹھی وہی جائز ہے جو مردوں کی انگوٹھی کی طرح ہو یعنی ایک نگینہ کی ہو۔“(بھار شریعت ملتقطاً، ج 03، ص 426، 427، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
ہیرا ایک قیمتی پتھر ہے، اور مردوں کے لئے پتھرسے بنی انگوٹھی کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض فقہاء یشب اور عقیق سے بنی انگوٹھی کی اجازت دیتے ہیں، بعض تمام پتھروں کی انگوٹھی کو جائز فرماتے ہیں، اور بعض ان سب سے منع کرتے ہیں ،چونکہ اس متعلق اختلاف ہے،اس کے پیش نظر صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ نے احتیاطااس سے بھی بچنےکا حکم فرمایا۔
ہیرے کے متعلق فیروز اللغات میں ہے: ”ہیرا: ایک بیش قیمت سخت پتھر۔“(فیروز اللغات، ص 1526، فیروز سنز، لاھور)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”اس میں آٹھ پتھر ہیں: یاقوت، پنّایعنی زمرد، نیلم، پکھراج، لہسنیا، مونگا، ہیرا، گئو سیندک اور نواں موتی۔“(فتاوی رضویہ، ج 03، ص 646، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
پتھر سے بنی انگوٹھی میں اختلاف کے متعلق تنویر الابصار و در مختار میں ہے :”(و لا یتختم) الا بالفضۃ،فیحرم (بغیرھا کحجر) و صحح السرخسي جواز اليشب و العقيق و عمم منلا خسرو“ مرد صرف چاندی کی انگوٹھی پہنے، اس کے علاوہ مثلا پتھر کی انگوٹھی حرام ہے، امام سرخسی نے یشب اور عقیق کی انگوٹھی کے جواز کو صحیح قرار دیا، اور ملا خسرو حنفی نے اس میں مزید عموم کرتے ہوئے تمام پتھروں کی انگوٹھی کو جائز فرمایا۔(الدر المختار مع رد المحتار، ج 06، ص 359- 360، دار الفکر)
ملا خسرو حنفی علیہ الرحمۃ کی عبارت یہ ہے: ”ان التختم بالحجر حلال على اختيار الإمام شمس الأئمة والإمام قاضي خان أخذا من قول الرسول وفعله؛ لأن حل العقيق لما ثبت بهما حل سائر الأحجار لعدم الفرق بين حجر وحجر وحرام على اختيار صاحب الهداية والكافي أخذا من ظاهر عبارة الجامع الصغير“ امام شمس الائمہ اور قاضی خان کے نزدیک سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل کی بنیاد پرپتھر کی انگوٹھی حلال ہے، کیونکہ جب عقیق کی حلت ثابت ہوگئی تو تمام ہی پتھر حلال قرار پائیں گے کیونکہ پتھروں میں بحیثیت پتھر ہونے کے باہم کوئی فرق نہیں، جبکہ صاحب ہدایہ اور کافی کے نزدیک جامع صغیر کی عبار ت کے ظاہر کی بنیاد پر پتھروں کی انگوٹھی حرام ہے۔(درر الحکام شرح غرر الاحکام، ج 01، ص 313، دار إحياء الكتب العربية)
بہار شریعت میں ہے: ”بعض علما نے یشب اور عقیق کی انگوٹھی جائز بتائی اور بعض نے ہر قسم کے پتھر کی انگوٹھی کی اجازت دی اور بعض ان سب کی ممانعت کرتے ہیں۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ چاندی کے سوا ہر قسم کی انگوٹھی سے بچاجائے، خصوصاً جبکہ صاحبِ ہدایہ جیسے جلیل القدر کا میلان ان سب کے عدم جوازکی طرف ہے۔“(بھار شریعت، ج 03، ص 16، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
ہاں اگر انگوٹھی کا حلقہ چاندی کا ہو اور اس میں نگ کی جگہ ایک ہیرا لگا ہو، تو کوئی حرج نہیں، محيط برھانی میں ہے: ”أن العبرة في الحظر و الإباحة للخدم لا للفص و هو المذهب“ انگوٹھی کے جائز وناجائز ہونے میں حلقے کا اعتبار ہے، نگینے کا نہیں، یہی مذہب ہے۔(محیط برھانی، ج 05، ص 349، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
بنایہ اور تبیین میں ہے، اللفظ للبنایۃ: ”وفي الأجناس: لا بأس للرجل أن يتخذ خاتما من فضة فصه منه، وإن جعل فصه من جزع أو عقيق أو فيروز، أو ياقوت أو زمرد لا باس بہ“ اجناس میں ہے: مردکے لیے کوئی حرج نہیں کہ وہ چاندی کی ایسی انگوٹھی بنائے جس کا نگ بھی چاندی کا ہو۔ اور اگر چاندی کی انگوٹھی کانگ لکڑی، عقیق، فیروزہ، یاقوت یا زمرد کاہوتب بھی حرج نہیں۔(البنایۃ، ج 12، ص 115، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
بہارشریعت میں ہے: ”انگوٹھی سے مراد حلقہ ہے نگینہ نہیں، نگینہ ہر قسم کے پتھر کا ہوسکتا ہے۔ عقیق، یاقوت، زمرد، فیروزہ وغیرہا سب کا نگینہ جائز ہے۔“(بھار شریعت، ج 3، ص 426، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم