
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ایک کالی ڈوری میں سفید موتی پرو کر ایک کنگن (bracelet) بنایا جاتا ہے، اور اسے بچے کے ہاتھ پر باندھا جاتا ہے تاکہ اُسے نظرِ بد سے محفوظ رکھا جا سکے۔ کیا ایسا کرنا اسلام میں جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قوانینِ شرع کی رو سے وہ ٹوٹکے جو عوام میں رائج ہوں اور غیر شرعی نہ ہوں تو ان سے نظر بد وغیرہ امراض کا علاج کرنا جائز ہے۔ البتہ! قرآنی سورتیں اوراحادیث میں آنے والی دعائیں پڑھ کردم کرنا یاان کا تعویذ باندھنا زیادہ بہترہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ موتیوں، منکوں والے کنگن، رنگ برنگے بریسلٹ یا ایسی دیگر چیزیں عموما بچیاں پہنتی ہیں؛ کیونکہ یہ چیزیں زیور میں سے شمار ہوتی ہیں جو عورتوں سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ بچے کو زیور پہنانے میں بچیوں اور عورتوں سے مشابہت لازم آتی ہے، جس کی شرعا اجازت نہیں۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں موتیوں والی بریسلٹ نما ڈوری صرف بچیوں کو پہنا سکتے ہیں،لڑکوں کو پہنانے کی اجازت نہیں ہے، ہاں! لڑکوں کوسادہ دھاگا شرعی طریقے سے دم کرکے باندھ سکتے ہیں۔ المعجم الكبير للطبراني میں ہے
"عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف قال: رأى عامر بن ربيعة سهل بن حنيف وهو يغتسل، فعجب منه، فقال: بالله ما رأيت كاليوم مخبأة في خدرها - أو قال: فتاة في خدرها -، قال: فلبط به حتى ما يرفع رأسه، قال: فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «هل تتهمون أحدا؟» ، فقالوا: لا يا رسول الله، إلا أن عامر بن ربيعة قال له كذا و كذا، قال: فدعاه، ودعا عامر بن ربيعة، فقال: «سبحان الله علام يقتل أحدكم أخاه؟ إذا رأى منه شيئا يعجبه فليدع له بالبركة»، قال: ثم أمره فغسل له فغسل وجهه، و ظاهر كفيه، و مرفقيه، و غسل صدره، و داخلة إزاره، و ركبتيه، و أطراف قدميه في الإناء ظاهرهما، ثم أمر به فصب على رأسه، و كفأ الإناء من خلفه - حسبته قال: و أمره فحسا منه حسوات - فأمره فقام فراح مع الركب"
ترجمہ: حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ وہ (باپردہ ستر ڈھانپ کر) غسل کر رہے تھے، تو ان کے جسم کو دیکھ کر تعجب کیا اور کہا: "اللہ کی قسم! آج تک میں نے ایسا نہیں دیکھا، گویا پردے میں چھپی ہوئی عورت ہے یا کہا: پردے میں چھپی ہوئی جوان لڑکی ہو۔" اس پر حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے کھڑے زمین پر گر گئے ہاں تک کہ وہ اپنا سر بھی نہ اٹھا سکے۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کو بتائی گئی تو آپ علیہ الصلوۃ و السلام نےارشاد فرمایا: "کیا تم کسی پر شک کرتے ہو؟ "صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: "جی ہاں، یا رسول اللہ(عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم)! عامر بن ربیعہ نے ان کے بارے میں یہ بات کہی تھی۔ "نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا اور فرمایا: "سبحان اللہ! تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے؟ جب تم کسی چیز کو پسند کرو تو اس کے لیے برکت کی دعا کرو۔" کہتے ہیں: پھر نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے انہیں دھونے کا حکم دیا تو حضرت عامر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے لیے اپنا چہرہ اور ہتھیلیوں کی پشت، کہنیاں، سینہ، تہبند کا داخلی حصہ، گھٹنے اور اپنے پاؤں کی پشت کے کنارے ایک برتن میں دھوکردئیے، پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم سے اسے حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کے سر پر ڈالا گیا اور ان کے پیچھے سے اسے انڈیلا،راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ و السلام کے حکم سے انہوں نے چندگھونٹ پیے پھر آپ علیہ الصلوۃ و السلام کے حکم سے وہ کھڑے ہوئے اورقافلے کے ساتھ چل دئیے۔ (المعجم الكبير للطبراني، جلد 06، صفحہ 79، حدیث 5574، مطبوعہ قاہرۃ)
مشکوۃ شریف میں صحیح مسلم شریف کے حوالے سے ہے (ترجمہ): "جب تم دھلوائے جاؤ تودھودو" اس کے تحت مراٰۃ المناجیح میں ہے "یعنی اگر کسی نظرے ہوئے کو تم پر شبہ ہو کہ تمہاری نظر اسے لگی ہے اور وہ دفع نظر کے لیے تمہارے ہاتھ پاؤں دھلواکر اپنے پر چھینٹا مارنا چاہے تو تم برا نہ مانو بلکہ فورًا اپنے یہ اعضاء دھوکر اسے دے دو نظر لگ جانا عیب نہیں نظر تو ماں کی بھی لگ جاتی ہے۔" (مراٰۃ المناجیح، جلد 06، صفحہ 197، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
اسی میں ہے "اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عوام میں مشہور ٹوٹکے اگر خلاف شرع نہ ہوں تو ان کا بند کرنا ضروری نہیں دیکھو، نظر والے کے ہاتھ پاؤں دھوکر منظور کو چھینٹا مارنا عرب میں مروج تھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو باقی رکھا، ہمارے ہاں تھوڑی سی آٹے کی بھوسی تین سرخ مرچیں منظور پر سات بار گھما کر سرسے پاؤں تک پھر آگ میں ڈال دیتے ہیں اگر نظر ہوتی ہے تو بھس نہیں اٹھتی اور رب تعالیٰ شفاء دیتا ہے جیسے دواؤں میں نقل کی ضرورت نہیں تجربہ کافی ہے ایسے ہی دعاؤں اور ایسے ٹوٹکوں میں نقل ضروری نہیں خلاف شرع نہ ہوں تو درست ہیں اگرچہ ماثورہ دعائیں افضل ہیں۔ حضرت عثمان غنی نے ایک خوبصورت تندرست بچہ دیکھا تو فرمایا اس کی ٹھوڑی میں سیاہی لگا دو تاکہ نظر نہ لگے، حضرت ہشام ابن عروہ جب کوئی پسندیدہ چیز دیکھتے تو فرماتے:
"ما شاءاللہ لا قوۃ الا بااللہ"
علماء فرماتے ہیں کہ بعض نظروں میں زہریلا پن ہوتا ہے جو اثر کرتاہے۔" (مراٰۃ المناجیح، جلد 06، صفحہ 197، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
ڈوری باندھنا اسلاف سے ثابت ہے۔ چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
"حدثنا أيوب أنه رأى في عضد عبيد الله بن عبد الله بن عمر خيطا"
ترجمہ: ایوب نے ہمیں بیان کیا ہے کہ انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر رحمۃ اللہ تعالی علیہ(حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے) کے بازو پر دھاگہ (یعنی گویا تعویذ) دیکھا۔ (مصنف ابن أبي شيبة، جلد 05، صفحہ 44، دار التاج، لبنان)
مبسوط سرخسی میں ہے
"و یکرہ للرجال التشبہ بھن"
ترجمہ: مردوں کے لیے عورتوں سے مشابہت اختیار کرنا مکروہ ہے۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 1، صفحہ 43، مطبوعہ دارالمعرفۃ، بیروت)
درمختار میں ہے
"(کرہ الباس الصبی ذھبا و حریرا)فان ما حرم لبسہ و شربہ حرم الباسہ و اشرابہ"
ترجمہ: لڑکے کو سونا اور ریشم پہنانا مکروہ ہے، کیونکہ جس کا پہننا اور پینا حرام ہے، اس کا پہنانااور پلانا بھی حرام ہے۔
علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"و الاثم علی من البسھم لانا امرنا بحفظھم"
ترجمہ: گناہ اس پر ہوگا جس نے بچوں کو پہنایا کیونکہ ہمیں ان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 9، صفحہ 598۔ 599، مطبوعہ: بیروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "لڑکوں کو سونے چاندی کے زیور پہنانا حرام ہے اور جس نے پہنایا، وہ گنہگار ہوگا۔ اسی طرح بچوں کے ہاتھ پاؤں میں بلا ضرورت مہندی لگانا، ناجائز ہے۔" (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 428، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3932
تاریخ اجراء: 21 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ/ 18 جون 2025 ء