
مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3650
تاریخ اجراء:17رمضان المبارک 1446ھ/18مارچ2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میوزک سننے کا کیا حکم ہے اور کیا حلال میوزک بھی ہوتا ہے ؟دلائل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
میوزک مطلقاناجائز و حرام ہے ، کوئی میوزک حلال نہیں ۔ مسند بزار میں ہے’’صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة، مزمار عند نعمة، ورنة عند مصيبة‘‘ ترجمہ : دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں : نعمت کے وقت باجے کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز ۔(مسند بزار، مسند ابی حمزہ انس بن مالک، جلد 14، صفحہ 62، مطبوعہ مدینۃ المنورہ)
مسند امام احمد بن حنبل میں ہے : ”عن ابي امامة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الله بعثني رحمة للعالمين وهدى للعالمين، وامرني ربي بمحق المعازف والمزامير والاوثان والصلب “ ترجمہ:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بے شک میرے رب نے مجھے دو نوں جہانوں کے لئے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور میرے رب نے مجھے بانسری اور گانے باجے کے آلات ،بت اور صلیب توڑنے کا حکم دیا ہے ۔(مسند امام احمد بن حنبل ،حدیث ابو امامہ باھلی، جلد36، صفحہ640، مؤسسۃ الرسالہ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان اللہ حرم علیکم الخمر والمیسر والکوبۃ وقال کل مسکر حرام“ ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے شراب اور جوا اور کوبہ (ڈھول)حرام کیا اور فرمایا:ہر نشہ والی چیز حرام ہے۔(سنن الکبری للبیھقی،کتاب الشھادات ، جلد 10،صفحہ 360،دار الکتب العلمیہ، بیروت(
بخاری شریف میں ہے : ”سرکارصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لیکونن فی امتی اقوام یستحلون الحر و الحریر و الخمر و المعازف “یعنی ضرور میری امت میں وہ لوگ ہونے والے ہیں جو عورتوں کی شرمگاہ (زنا )اور ریشمی کپڑوں اور شراب اور باجوں کو حلال ٹھہرائیں گے ۔(صحیح البخاری،کتاب الاشربۃ،رقم الحدیث 5590،ج 7،ص 106،دار طوق النجاۃ)
الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی میں ہے:”و دلت المسئلۃعلی أن الملاھی کلھا حرام حتی التغنی لضرب القضیب “یعنی یہ مسئلہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ گانے باجے کے آلات سب حرام ہیں، یہاں تک کہ کسی چیز پر لکڑی کی ضرب لگاکر موسیقی پیدا کرنا بھی۔(الهدایۃ،جلد4،صفحہ365،دار احیاء التراث العربی،بیروت)
علامہ محمد امین ابن عابدین شامی رحمۃاللہ علیہ درمختار کی اس عبارت ” وکرہ کل لھو “کے تحت فرماتے ہیں: ”والإطلاق شامل لنفس الفعل و استماعہ کالرقص و السخریۃ والتصفیق و ضرب الأوتار من الطنبور و البربط و الرباب والقانون والمزمار و الصنج و البوق فإنھا کلھا مکروھۃ لأنھا زی الکفار واستماع ضرب الدف والمزمار و غیر ذلک حرام “ یعنی لہو و لعب کا کرنااور اس کا سننا سب اس مکروہ ہونے میں داخل ہے۔ جیسے رقص، مذاق مستی، تالی اور سارنگی اور بغیر تاروں اور تاروں والا باجہ بجانا اور بانسری، جھانجھ اوربگل بجانا۔ پس یہ تمام میوزیکل آلات بجانا مکر ہے کہ یہ کفار کی ہیئت ہے اور دف اور بانسری اور اس کے علاوہ اسی قبیل کی چیزوں کا سننا بھی حرام ہے۔(رد المحتار، جلد9، صفحہ566، مطبوعہ کوئٹہ)
امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشادفرماتے ہیں:”مزامیرحرام ہیں ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث صحیح میں حضوراقدس صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم نے ایک قوم کاذکرفرمایا:”یستحلون الحر والحریر والمعازف “زنا اور ریشمی کپڑوں اور باجوں کو حلال سمجھیں گےاور فرمایا: وہ بندراور سورہوجائیں گے۔ ہدایہ وغیرہ کتب معتمدہ میں تصریح ہے کہ مزامیر حرام ہیں۔ حضرت سلطان الاولیاء محبوب الٰہی نظام الحق والدّین رضی اﷲ تعالی عنہ فوائد الفواد شریف میں فرماتے ہیں: مزامیر حرام است۔(یعنی گانے بجانے کے آلات حرام ہیں ۔"(فتاوی رضویہ ،جلد24، صفحہ138،رضافاؤنڈیشن،لاهور)
بہار شریعت میں ہے "ناچنا، تالی بجانا، ستار، ایک تارہ، دو تارہ، ہارمونیم، چنگ، طنبورہ بجانا، اسی طرح دوسرے قسم کے باجے سب ناجائز ہیں ۔ "( بہار شریعت، حصہ 16، صفحہ 511، مکتبۃ المدینہ، کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم