
مجیب:مولانامحمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3494
تاریخ اجراء:21رجب المرجب1446ھ/22جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
نا محرم کے لئے دعا کرنا کیسا؟ نیز اس کے نام پر صدقہ کرنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نا محرم کے لئے دعا و ایصال ثواب کرنے اور اس کے نام پر صدقہ کرنے میں فی نفسہٖ تو کوئی حرج نہیں ہے بالخصوص اگر فوت شدہ ہے، تو کسی قسم کا شبہہ نہیں ہے، جیسا کہ نماز کے آخر میں مسلمان مَردوں اور عورتوں جن میں محرم اور غیر محرم تمام ہی شامل ہوتے ہیں، ان کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ اسی طرح غیر محرم کا جنازہ پڑھتے ہوئے بھی اس کے لیے دعا کی جاتی ہے۔
نیز اگر کسی نے ضرورت کے لیے دعا کے لیے کہا تو اس میں بھی حرج نہیں، بلکہ احادیث میں مطلقا (مَحرم اور غیر مَحرم کے ذکر کے بغیر)مسلمان مَردوں اور عورتوں کے لیے دعا کرنے کی ترغیب بھی موجود ہے، جن میں غیر محرم بھی ہوتے ہیں، لہٰذا یوں غیر محرم کے لیے دعا کرنے میں حرج نہیں ہے، ہاں یہ دیکھ لیا جائے کہ دعا و ایصال ثواب کرنے یا اس کے نام پر صدقہ کرنے میں معاذ اللہ عزوجل اس کی طرف برے خیالات جاتے ہوں یاکسی قسم کے فتنے کااندیشہ ہوتو پھر اس سے بچنا ہوگا کہ ہر وہ ذریعہ اور وسیلہ جو بندے کو گناہ کی طرف لے جائے،وہ ذریعہ اور وسیلہ بھی حرام ہوتاہے۔
ہر وہ ذریعہ اور وسیلہ جو بندے کو گناہ کی طرف لے جائے،وہ ذریعہ اورو سیلہ بھی حرام ہوگا، چنانچہ فتح الباری میں ہے:”أن من آل فعله إلى محرم يحرم عليه ذلك الفعل وإن لم يقصد إلى ما يحرم“ ترجمہ: جو شخص کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرے جس کا نتیجہ کسی حرام تک پہنچے، تو وہ فعل اُس پر حرام ہو جائے گا، چاہے اُس کا مقصد وہ حرام کام نہ ہو۔(فتح الباری، جلد10، صفحہ404، دار المعرفۃ، بیروت)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے"من القواعد المقررة أن للوسائل حكم المقاصد، فوسيلة الطاعة طاعة، ووسيلة المعصية معصية" ترجمہ: مقررہ قواعد میں سے یہ بات بھی ہے کہ وسائل کا حکم مقاصد والا ہوتا ہے، یعنی جو چیز طاعت (نیکی) کا ذریعہ بنے، وہ خود بھی طاعت (نیکی) ہے اور جو چیز معصیت (گناہ) کا ذریعہ بنے، وہ خود بھی معصیت (گناہ) ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد04، صفحہ 1270، دار الفکر، بیروت)
ایصال ثواب کے متعلق بنایہ شرح ہدایہ میں ہے: ”(الاصل فی ھذا الباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره)۔۔ يعني سواء كان جعل ثواب عمله لغيره(صلاةاو صوما او صدقة او غيرها) كالحج وقراءة القران والاذكار وزيارة قبور الانبياءوالشهداء والاولياءوالصالحين وتكفين الموتى وجميع انواع البر“ ترجمہ: اس باب میں قاعدہ یہ ہے کہ انسان کےلیے اپنے عمل کا ثواب کسی دوسرے کو پہنچانا، جائز ہے، اب برابر ہے کہ انسان جس عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچا رہا ہے،وہ نماز ہو، روزہ ہو، صدقہ ہو یااس کے علاوہ کوئی اور عمل ہو، جیسے حج، قراءتِ قرآن، ذکرو اذکاراورانبیاء، شہداء، اولیاء اور صالحین کی قبروں کی زیارت، مردوں کی تکفین اور ہر قسم کی نیکیاں (ان کا ثواب دوسروں کو ایصال کر سکتا ہے۔)(البنایۃ شرح الھدایۃ،جلد4،صفحہ 422،مطبوعہ :کوئٹہ)
بحر الرائق میں ہے ”من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا۔۔۔ وظاهر إطلاقهم يقتضي أنه لا فرق بين الفرض والنفل“ ترجمہ:جس نے روزہ رکھا یا نماز پڑھی یا صدقہ کیا اور اس کا ثواب زندوں یا مردوں میں سے کسی کو بخش دیا تو اہل سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے اور اس کا ثواب انہیں پہنچے گا ،یو نہی بدائع میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ جسے ثواب بخشا گیا وہ زندہ ہو یامردہ ہو، کوئی فرق نہیں۔ اور علماء کے اطلاق کا ظاہر اس کا تقاضا کرتا ہے کہ جس عمل کا ثواب بخشا گیا، اس کے فرض و نفل میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔(البحر الرائق، ج3، ص63 ،64، دار الكتاب الإسلامي، بیروت)
رد المحتار میں ہے ”صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة“ ترجمہ: ہمارے علماء نے "باب الحج عن الغیر" میں اس کی تصریح کی ہے کہ انسان کے لیے یہ جائزہے کہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دے، یہ عمل نماز ہو، روزہ ہو، صدقہ ہو یا کچھ اور ہو، ہدایہ میں بھی یونہی ہے۔ بلکہ تتارخانیہ کی کتاب الزکوۃ میں محیط سے یہ نقل کیا کہ نفلی صدقہ کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ تمام مومنین و مومنات کی نیت کرے، اس لیے کہ ثواب سب کو پہنچے گا اور اس کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی، یہ ہی اہلسنت والجماعت کا مذہب ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج 2،ص 243،دار الفکر،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم