نامحرم کے ساتھ ایک ٹیبل پر کھانے کا حکم

نامحرم مرد و عورت کا ایک ٹیبل پر کھانا کھانا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

آج کل رائج ہو چکا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی فیملی کے ساتھ، ایک ساتھ ٹیبل کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور آپس میں باتیں کرتے ہیں، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پہلے یہ سمجھ لیں کہ اگر لڑکے لڑکی کا نکاح پہلے کر دیا گیا اور شادی یعنی رخصتی دیر سے ہونی ہو، تو بھی نکاح ہو جاتے ہی شرعا وہ میاں بیوی ہو جاتے ہیں، لہٰذا آپس میں پردہ فرض نہیں رہتا۔ البتہ محض منگنی، نکاح نہیں، صرف نکاح کا وعدہ ہے، لہٰذا منگیتر سے پردہ فرض رہتا ہے اور بے پردگی حرام۔اس کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر نکاح ہو چکا ہو، تب تو شادی سے پہلے بھی وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر کھانا کھا سکتے اور بات کر سکتے ہیں، لیکن اگر صرف منگنی ہوئی ہو، تو ایسا نہیں کر سکتے۔ یونہی ان دونوں کے علاوہ دونوں کی فیملی کے باقی مرد و عورت، جو آپس میں اجنبی یعنی نامحرم ہوں، ان سب پر بھی ایک دوسرے سے پردہ کرنا فرض اور بے پردگی حرام ہے اور آپ کے سوال میں ذکر کی گئی جو صورت آج کل رائج ہے، اس میں عموما نا محرم مرد و عورت ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہی بیٹھتے ہیں، لہٰذا ایسا کرنا حرام ہے۔ اجنبی مَردوں عورتوں کا اختلاط سخت ناجائز وحرام اور اللہ پاک کی شدید نافرمانی والے کام ہیں۔ قرآن و حدیث میں واضح طور پر بد نگاہی و بےپردگی سے منع کیا گیا ہے۔ اِسی وجہ سے حکمِ شریعت یہ ہے کہ مرد بلاضرورتِ شرعیہ نامحرم عورت کے چہرے کو بھی نہیں دیکھ سکتا اور عورت کا سر کے بال، گلے، گردن، کلائی وغیرہ کا کوئی حصہ نامحرم کے سامنے ظاہر کرنا یا ایسا باریک لباس پہن کر غیرمحرم کے سامنے آنا، جس سےاِن اعضا کا کوئی حصہ چمکے، یہ حرام ہے۔ قرآن پاک میں ہے:

﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ- ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ- اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰) وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾

ترجمہ کنز الایمان: مسلمان مَردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے، بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے، اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں، مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے۔ (پارہ 18، سورۃ النور، آیت 30 ، 31)

سنن ترمذی میں ہے

"عن عبد اللہ، عن النبي صلى اللہ عليه و سلم، قال: المرأة عورة"

 ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورت (تمام کی تمام) چھپانے کی چیز ہے۔ (جامع الترمذی، ابواب الرضاع، باب ماجاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات، جلد 1، صفحہ 351، مطبوعہ: لاہور)

امامِ اہلِسنت سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "بے پردہ بایں معنی کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے، ان میں سے کچھ کھلا ہو، جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یا گلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز، تو اس طور پر تو عورت کو غیر مَحْرَم کے سامنے جانا مطلقا حرام ہے، خواہ وہ پیر ہو یا عالم یا عامی جوان ہو یا بوڑھا۔"(فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 239۔ 240، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وقار الفتاوی میں ہے "رشتہ جوڑنے کے بعد بھی غیر محرم شخص کے احکام باقی رہیں گے، نہ اس سے بات کرسکتی ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ تنہائی میں جمع ہوسکتی ہے۔" (وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 148، مطبوعہ: بزم وقار الدین، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3882

تاریخ اجراء: 03 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 31 مئی 2025 ء