
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-663
تاریخ اجراء:16 شعبان المعظم 1446 ھ/15 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نو مولود بچے کو یعنی لڑکے کو سونےاور چاندی وغیرہ پہنانے کا کیا حکم ہے؟مثلا سونے کی انگوٹھی اور چاندی کے کنگن وغیرہ۔برائے کرم رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جنسِ مرد پر سوائے چاندی کی ایک انگوٹھی کےجس کا وزن ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو، بقیہ تمام سونے اور چاندی کےزیورات پہننا، ناجائز وحرام ہے، لہذا نومولود بچے کو بھی سونے کی انگوٹھی اور چاندی کے کنگن پہنانا، ناجائز و حرام اور گناہ کا کام ہے، اور اِس کا گناہ پہنانے والے شخص پر ہی ہو گا، خود بچے پراس کاکوئی گناہ نہیں ہوگا کہ بچہ تو ابھی ان احکامات کا مکلف ہی نہیں ہے۔
مرد کو سوائے چاندی کی ایک انگوٹھی کے، بقیہ تمام سونے اور چاندی کے زیوارت پہننا حرام ہے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے: ’’أن النص الوارد بتحريم الذهب على الرجال يكون واردا بتحريم الفضة دلالة فیکرہ للرجال استعمالھا فی جمیع مایکرہ استعمال الذھب فیہ الا التختم بہ اذا ضرب علی صیغۃ ما یلبسہ الرجال و لا یزید علی المثقال“ ترجمہ: وہ نص جو مردوں پر سونے کی حرمت سے متعلق وارد ہے تو وہ مردوں پر چاندی کے حرام ہونے پر بھی دلالۃً وارد ہوگی، لہذا مَردوں کے لئے چاندی کا استعمال ان تمام چیزوں میں مکروہ ہوگا جن میں سونے کا استعمال مکروہ ہوتا ہے، سوائے چاندی کی ایک انگوٹھی کے کہ جب وہ اس شکل پر بنائی گئی ہو جس کو مرد پہنتے ہیں اور اس کا وزن ایک مثقال پر زائد نہ ہو۔ (بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 133، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ”مرد کو زیور پہننا مطلقاً حرام ہے ، صرف چاندی کی ایک انگوٹھی جائز ہے جو وزن میں ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو“(بھارِ شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 426، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بچے کو سونے چاندی کے زیورات پہنانا، ناجائز و حرام ہے، چنانچہ تنوير الابصار مع درمختار میں ہے: ’’(و كره إلباس الصبي ذهبا أو حريرا) فإن ما حرم لبسه و شربه حرم إلباسه و إشرابه ‘‘ ترجمہ:اور لڑکے کو سونا یا ریشم پہنانا مکروہ ہے، کیونکہ جو چیز پہننا اور پینا حرام ہو، اسے پہنانا اور پلانا بھی حرام ہوتا ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 9، صفحہ 599،598، دار المعرفۃ، بیروت)
اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ’’لأن النص حرم الذهب و الحرير على ذكور الأمة بلا قيد البلوغ و الحرية و الإثم على من ألبسهم لأنا أمرنا بحفظهم ذكره التمرتاشي. و في البحر الزاخر: و يكره للإنسان أن يخضب يديه و رجليه، و كذا الصبي إلا لحاجة بناية، و لا بأس به للنساء۔ أقول: ظاهره أنه كما يكره للرجل فعل ذلك بالصبي يكره للمرأة أيضا و إن حل لها فعله لنفسها‘‘ ترجمہ: کیونکہ نص نے امت کے مردوں پر سونے اور ریشم کو بغیر بلوغت اور آزادی کی قید کے حرام قرار دیا ہے، اور ان (بچوں) کو سونا اور ریشم پہنانے کا گناہ اس شخص پر ہوگا جو انہیں پہنائے گا، کیونکہ ہمیں(ان چیزوں سے) بچوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، اس کوتمرتاشی نے ذکر کی ہے۔ اور البحر الزاخرمیں ہے: انسان کے لیے اپنے ہاتھوں اور پیروں کو خضاب لگانا مکروہ ہے، اور اسی طرح بچے کو بھی، سوائے کسی ضرورت کے۔ بنایہ۔ اورعورتوں کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں کہتا ہوں: اس عبارت کا ظاہر یہ بتاتا ہے کہ جس طرح مرد کے لیے بچے کے ساتھ یہ عمل ( یعنی سونا اور ریشم پہنانا، ہاتھ پاؤں میں مہندی لگانا) مکروہ ہے، اسی طرح عورت کے لیے بھی بچے کے ساتھ یہ عمل مکروہ ہوگا، اگرچہ خود اس کو اپنے لئے ایسا کرنا حلال ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد 9، صفحہ 599،598،دار المعرفۃ، بیروت)
بچے کو سونے چاندی کے زیورات پہنانے کا گناہ، پہنانے والے شخص پر ہوگا، چنانچہ جوہرۃ النیرہ میں ہے: ’’قال الخجندي و الإثم على من ألبسه ذلك؛ لأنه لما حرم اللبس حرم الإلباس كالخمر لما حرم شربه حرم سقيه؛ و لأنهم يمنعون من ذلك لئلا يألفوه كما يمنعون من شرب الخمر و سائر المعاصي و لهذا أمر النبي- صلى الله عليه و سلم- بتعليمهم الصلاة و ضربهم على تركها لكي يألفوها و يعتادوها‘‘ ترجمہ: خجندی نے کہا: اس (بچے کو سونا یا ریشم پہنانے) کا گناہ اس شخص پر ہوگا جو اسے پہنائے گا، کیونکہ جب کسی چیز کا پہننا حرام قرار دیا گیا ہے، تو اسے پہنانا بھی حرام ہوگا، جیسے شراب کہ جب اس کا پینا حرام ہے تو کسی کو پلانا بھی حرام ہے۔ اور اس لئے کہ انہیں(بچوں کو ) اس سے روکا جاتا ہے تاکہ وہ اس کے کہیں عادی نہ بن جائیں، جس طرح انہیں شراب نوشی اور دیگر گناہوں سے روکا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بچوں کو نماز پڑھانے کا اور نماز نہ پڑھنے پر مارنے کا حکم دیا، تاکہ وہ اس سے مانوس ہو جائیں اور اسے اپنی عادت بنا لیں۔(الجوھرۃ النیرۃ، جلد 2، صفحہ 282، المطبعة الخيرية)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں: ’’لڑکوں کو سونے چاندی کے زیور پہنانا حرام ہے اور جس نے پہنایا، وہ گنہگار ہوگا۔ اسی طرح بچوں کے ہاتھ پاؤں میں بلا ضرورت مہندی لگانا، ناجائز ہے۔‘‘(بھار شریعت، جلد3، حصہ 16، صفحہ 428، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم