Parindon Aur Janwaron Ki Shakal Ke Guldan Istemal Karne Ka Hukum

پرندوں اور  جانوروں کی شکل کے گلدان و گملے استعمال کرنا

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3539

تاریخ اجراء:10شعبان المعظم1446ھ/09فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا بیرونی سجاوٹ کے لیے پرندوں کی شکل کے گملے، بطخ یا خرگوش کی شکل کے گلدان، یا مسکراتے چہروں والے گملے استعمال کرنا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایسے گملے اور گلدان کہ جو واضح طور پر کسی جاندار کی شکل کے بنے ہیں یا ان پر کسی جاندار کی صورت نقش کی گئی ہے جس میں چہرہ، آنکھیں وغیرہ واضح ہیں، تو انھیں سجاوٹ کے لئے  استعمال کرنا، تعظیم کی جگہ پر رکھنا جائز نہیں۔ البتہ اگر ان کی صورت مسخ کر دی جائے تو اب استعمال کر سکتے ہیں۔ نیز مسکراتے چہروں سے اگر انسانی چہرے یا کسی جاندار کے چہرے  مرادہیں  تو اس کا بھی یہی حکم ہے اور اگر خیالی کارٹون مراد ہیں کہ ان صورتوں کی کوئی مخلوق نہیں پائی جاتی، دیکھنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ کسی ذی روح(جاندار) کودیکھ رہا ہے، تو  اس پر  جاندار کی تصویر کا حکم نہیں ہوگا۔

   فتاوی رضویہ میں سوال ہے”اگرکسی کپڑے پرتصویریں چھپی ہوئی ہوں تو اس کو فروخت کرنا جائز ہے یانہیں؟ اور وہ تصویریں پرندوں کی ہوں۔"

   تو اس پر آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً  ارشاد فرمایا: ”کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کاچہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہو کہ زمین پررکھ کرکھڑے سے دیکھیں تو اعضا کی تفصیل ظاہرہو، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پرہو اس کاپہننا، پہنانا یابیچنا، خیرات کرنا سب ناجائزہے، اور اسے پہن کرنمازمکروہ تحریمی ہے جس کادوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ ایسے کپڑے پرسے تصویرمٹادی جائے یا اس کاسریاچہرہ بالکل محوکردیاجائے۔ اس کے بعد اس کاپہننا، پہنانا، بیچنا، خیرات کرنا، اس سے نماز، سب جائزہوجائے گا۔ اگر وہ ایسے پکے رنگ کی ہوکہ مٹ نہ سکے دھل نہ سکے توایسے ہی پکے رنگ کی سیاہی اس کے سریاچہرے پراس طرح لگادی جائے کہ تصویر کااُتنا عضومحوہوجائے صرف یہ نہ ہوکہ اتنے عضو کارنگ سیاہ معلوم ہوکہ یہ محوومنافی صورت نہ ہوگا۔“(فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ567، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   حبيب الفتاو ی میں مفتی  محمد حبیب اللہ نعیمی صاحب  سے سوال ہوا: ”آجکل جو ظروف سازی  میں انسان و جانوروں وغیرہ کے ڈیزائن بنائے جا رہے ہیں جیسے چڑیا، مور، مچھلی  وغیرہ وغیرہ باشندگان مراد آباد  میں پچھتر فیصدی کاریگر طبقہ مسلمان یہی کاروبار کرتے ہیں۔۔۔ اس صورت میں کمائی گئی روزی جائز ہے؟“ تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا: ”شریعت طاہرہ نے ہر ذی روح کے چہرے کی تصویر بنانے کو حرام وناجائز  قرار دیا ہے، خواہ ذی روح کی تصویر  و چہرہ، کپڑے یا کاغذ پر بنائے یا لوہے، پیتل، تانبے، بھرت، گلٹ، کنچ، مٹی وغیرہ کا بنائے  کسی ذی روح کی ایسی تصویر سازی جائز نہیں۔ بت پرستی اور اس کی طرف  لے جانے والی ہر چیز کو شے کو اسلام نے ہمیشہ کےلئے ختم کر دیا ہے۔جب تصویر و فوٹو سازی ہر ذی روح کے چہرہ کی حرام ہے تو اس کا کسب  کرنا اور پیشہ اختیار کرنا بھی جائزنہیں۔۔ الخ“(حبيب الفتاو ی، جلد4، صفحہ78، شبیر برادرز)

   فتاویٰ رضویہ میں ہے :"تصویر کسی طرح استیعاب مابہ الحیاۃنہیں ہوسکتی فقط فرق حکایت و فہم ناظر کا ہے اگر اس کی حکایت محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے یعنی ناظر یہ سمجھے کہ گویا ذوالتصویر زندہ کو دیکھ رہا ہے تو وہ تصویر ذی روح کی ہے اور اگر حکایت حیات نہ کرے ناظر اس کے ملاحظہ سے جانے کہ یہ حی کی صورت نہیں میت و بے روح کی ہے تو وہ تصویر غیر ذی روح کی ہے۔"(فتاویٰ رضویہ، جلد24، صفحہ587، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مجلس شرعی کے فیصلے میں ہے :"وہ کارٹون جو جنسِ حیوان کی مشابہت پر مشتمل ہو وہ تصویر ذی روح ہے ، جو ایسا نہ ہو وہ ذی روح کی تصویر نہیں۔ ذی روح کی تصویر بنانے کا جو حکم ہے وہی حکم ذی روح کا کارٹون بنانے کا بھی ہے ۔ غیر ذی روح کی صورت گری حرام نہیں، اسی طرح غیر ذی روح کا کارٹون بھی حرام نہیں، کیوں کہ اس سے بھی حکایتِ حیات نہیں ہوتی۔"(مجلس شرعی کے فیصلے، جلد01، صفحہ 387، مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم