
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
جس پانی میں پاؤں لگ گیا، اس کو پی سکتے ہیں یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
دھلا ہوا پاک پاؤں اگر پانی میں پڑ گیا اور پانی میں کوئی کچرا وغیرہ بھی نہیں تو وہ پانی پیا جاسکتا ہے، البتہ اگر طبیعت میں کراہت آئے تو کسی اور جائز استعمال میں لایا جائے، ضائع کرنے کی اجازت نہیں، بے دھلا پاؤں اگر پانی میں پڑ گیا تو پانی مستعمل ہوجائے گا، اب اس کا پینا مکروہ تنزیہی ہے، پینے کے لئے علاوہ کوئی اور جائز استعمال مثلاً پودوں وغیرہ میں ڈال دیں۔
مستعمل پانی پاک ہے، البتہ اس کو پینے یا کھانے وغیرہ میں استعمال کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ چنانچہ درمختار میں ہے:
”ھو طاھر و ھو الظاھر لكن يكره شربه و العجن به تنزيها للاستقذار“
ترجمہ: ظاہر قول کے مطابق مستعمل پانی پاک ہے، لیکن اس کا پینا اور اس سے آٹا گوندھنا، مکروہ تنزیہی ہے، کیونکہ اس سے گِھن آتی ہے۔ (درمختار مع رد المحتار، جلد 1، صفحہ 390، مطبوعہ کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2110
تاریخ اجراء: 08 رجب المرجب 1446 ھ / 09 جنوری 2025 ء