
مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-2023
تاریخ اجراء:27 جمادی الاولٰی 1446 ھ/ 30 نومبر 2024 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میرا رشتہ طے ہو چکا ہے، لیکن ہمارے رواج کے مطابق شادی اس وقت ہوگی جب میں لڑکی والوں کو تین تولہ سونا اور چار لاکھ روپے کیش ادا کروں گا۔ میرے پاس ان چیزوں کا انتظام نہیں ہو پا رہا، والد صاحب وفات پاچکے ہیں اور بھائی میری مدد نہیں کر رہے۔ اس صورت میں اگر میری وجہ سے لڑکی کی شادی میں تاخیر ہورہی ہے، تو کیا مجھ پر گناہ ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
رشتہ دینے کے عوض رقم و سونے کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، یہ رشوت کے حکم میں ہے، جس کا لین دین ناجائز و گناہ ہے، لہٰذا اگر رشتے کے عوض رقم وغیرہ دینے کی بات ہوئی ہے تو آپ یہ دینے سے منع کردیں، اس کی وجہ سے اگر لڑکی والے اپنی لڑکی کو بٹھاتے ہیں اس کا وبال آپ پر نہیں۔ ہاں البتہ نکاح میں مہر کے طور پر دینے کی بات ہوئی ہےتو اس پر رشوت کا حکم نہیں البتہ مہر حسبِ استطاعت ہی رکھنا چاہیے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے کے متعلق لعنت فرمائی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عَمْرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم الراشی و المرتشی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے رشوت دینے والے اور لینے والے (دونوں ) پر لعنت فرمائی ہے۔ (ابو داؤد، جلد 2، صفحہ 148، مطبوعہ: لاھور)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
خطب امراۃ فی بیت اخیھا فابی ان یدفعھا حتی یدفع دراھم فدفع و تزوجھا یرجع بما دفع لانھا رشوۃ۔
عورت کہ جو اپنے بھائی کے گھر میں تھی اسے کسی شخص نےنکاح کا پیغام بھیجا تو اس کے بھائی نے نکاح سے انکار کیا یہاں تک کہ اس کو کچھ دراہم دیئے جائیں تو اس شخص نے دراہم دیئے اور نکاح کرلیا تو جو دراہم اس نے دیئے وہ واپس لے کیونکہ وہ رشوت ہیں۔ (فتاوی عالمگیری، جلد 4، صفحہ 403، مطبوعہ: مصر)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: یہ روپے جو(نکاح میں دینے کے عوض ) باندھے گئے ہیں محض رشوت وحرام ہیں، نہ ان کاکھانا جائز، نہ بانٹ لیناجائز، نہ مسجد میں لگانا جائز، بلکہ لازم ہے کہ جس شخص سے لئے ہیں اسے واپس دیں۔(فتاوٰی رضویہ، جلد 23، صفحہ 538، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
حدیث پاک میں ہے: ”بڑی برکت والا وہ نکاح ہے جس میں بوجھ کم ہو۔“ (مسند احمد، جلد 9، صفحہ 365، حدیث: 24583)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ المنان اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: ”یعنی جس نکاح میں فریقین کا خرچ کم کرایا جائے، مہر بھی معمولی ہو، جہیز بھاری نہ ہو، کوئی جانب مقروض نہ ہوجائے، کسی طرف سے شرط سخت نہ ہو، اﷲ عزوجل کے تَوَکل پر لڑکی دی جائے وہ نکاح بڑا ہی بابرکت ہے ایسی شادی خانہ آبادی ہے، آج ہم حرام رسموں، بے ہودہ رواجوں کی وجہ سے شادی کو خانہ بربادی بلکہ خانہا(یعنی بہت سارے گھروں کے لئے باعثِ) بربادی بنا لیتے ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 11)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم