کیا مستقل سر منڈوائے رکھنا جائز ہے؟

سر منڈائے رکھنے کا حکم

مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1975

تاریخ اجراء:12ربیع الآخر1446ھ/16اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میں گزشتہ ایک سال سے زیرو والی مشین کے ذریعہ اپنے سر کے بال کاٹ لیتا ہوں، جس سے پورا سر صاف ہوجاتا ہے یعنی ٹنڈ کرلیتا ہوں، ابھی مجھے کسی شخص نے کہا کہ اسلامی اعتبار سےایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے، آپ رہنمائی فرمائیں کیا اس شخص کی بات درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سنت یہی ہے کہ پورے سر پر بال رکھے جائیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج یا عمرے کے علاوہ حلق کروانا ثابت نہیں۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنا سر منڈوایا کرتے تھے تاکہ غسل میں مشکل نہ ہو۔ اگر کوئی  سر کے بال  بالکل ختم کروا لیتا ہے جسے عرفاً  ٹنڈ یا حلق کروانا بھی کہا جاتا ہے، تو یہ  شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی گناہ والی بات نہیں۔

   سنن ابو داود میں ہے :عن علي رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ترك موضع شعرة من جنابة لم يغسلها فعل بها كذا وكذا من النار» قال علي: فمن ثم عاديت رأسي ثلاثا، وكان يجز شعره“ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو جنابت میں ایک بال کی جگہ چھوڑ دے جسے نہ دھوئے، تو اسے آگ میں ایسا ایسا عذاب دیا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اسی لئے میں اپنے بالوں کا دشمن ہوا ہوں، یہ جملہ تین بار فرمایا  اور وہ اپنے بال کاٹا کرتے تھے۔

   حاشیہ سندی علی ابن ماجہ میں ہے: ”واستدل بالحديث على جواز حلق الرأس وجزه لأنه - صلى الله عليه وسلم- أقر عليا على ذلك ولأنه من جملة الخلفاء الراشدين المأمور الناس بالاقتداء بهم و التمسك بسنتهم“ یعنی اس حدیث سے حلق اور بال کاٹنے کے جواز پر استدلال کیا گیا کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اس پر برقرار رکھا اور اس وجہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین سے ہیں جن کی اقتدا کرنے اور ان کے طریقہ کو تھامنے کا حکم دیا گیا ہے۔(حاشية السندي على سنن ابن ماجه، جلد1، صفحہ333، دار المعرفۃ، بیروت)

   امام ابن عبد البر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”وفي هذا الحديث دليل على إباحة حبس الشعر والجمم و الوفرات والحلق أيضا مباح لأن الرسول صلى الله عليه وسلم حلق رؤوس بني جعفر بن أبي طالب بعد أن أتاه خبر قتله بثلاثة أيام ولو لم يجز الحلق ما حلقهم والحلق في الحج نسك ولو كان مثله كان كما قال من قال ذلك ما جاز في الحج ولا في غيره لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المثلة وقد أجمع العلماء في جميع الآفاق على إباحة حبس الشعر وعلى إباحة الحلاق وكفى بهذا حجة“ یعنی  اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ بال بڑھانا، زلفیں رکھنا،گھنے بال رکھنا جائز ہے اور سر منڈوانا بھی جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب کے بیٹوں کے سر اس وقت منڈوائے جب انہیں ان کی شہادت کی خبر تین دن بعد پہنچی۔ اگر سر منڈوانا جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سر نہ منڈاتے۔ اور حج میں سر منڈوانا نسک (عبادت)  ہے۔ اگر یہ عمل مثلہ (جسم یا اعضاء کو بگاڑنے) کے زمرے میں آتا تو جیسا کہ کچھ لوگوں نے کہا، تو یہ نہ حج میں جائز ہوتا اور نہ کسی اور موقع پر، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "مثلہ" سے منع فرمایا ہے۔ اور تمام آفاق میں علماء کا اس پر اجماع ہے کہ بال بڑھانا بھی جائز ہے اور بال منڈوانا بھی جائز ہے۔ یہی اس مسئلے میں کافی دلیل ہے۔(التمهيد لابن عبد البر،جلد9، صفحہ 128،دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم