
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
ایک حدیث پاک ہے،جس میں بیان کیا گیا ہے کہ: "تین بندوں سے قیامت کے دن اللہ تعالی کلام نہیں کرے گا، اور انہیں عذاب ہوگا، ان میں سے ایک ہے تہبند لٹکانے والا۔ تو اس کے بارے میں بتا دیں کہ تہبند لٹکانے سے کیا مراد ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مذکورہ بالا حدیثِ پاک میں تہبند لٹکانے سے مراد تہبند، پاجامہ وغیرہ کوٹخنوں سے نیچے رکھنا ہے اور یہ وعید ان کے لیے ہے، جو فیشن یا غرور و تکبر کی وجہ سے اپنا پاجامہ یا تہبند ٹخنوں سے نیچے رکھیں۔
صحیح بخاری شریف میں ہے
"قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: «من جر ثوبه خيلاء، لم ينظر الله إليه يوم القيامة»"
ترجمہ: اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جس نے تکبرکی وجہ سے اپنے کپڑے کولٹکایا، اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی طرف نظررحمت نہیں فرمائے گا۔(صحیح البخاری، کتاب اصحاب النبی علیہ الصلوۃ و السلام، ج 05، ص 06، دار طوق النجاۃ)
صحیح مسلم میں ہے
”عن أبي ذر، عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: «ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، و لا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم» قال: فقرأها رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاث مرارا، قال أبو ذر: خابوا و خسروا، من هم يا رسول الله؟ قال: المسبل، و المنان، و المنفق سلعته بالحلف الكاذب“
ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: تین شخص وہ ہیں، جن سے اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن نہ تو کلام کرے گا، نہ نظر رحمت فرمائے گا اور نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہی کلمات ارشاد فرمائے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: وہ تو ٹوٹے اور خسارہ میں پڑ گئے، یارسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم! وہ کون ہیں؟ فرمایا: تہبند لٹکانے والا، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے مال بیچنے والا۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث 106، ج 1، ص 102، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
حدیثِ پاک کے لفظ ”المسبل“ کی شرح کرتے ہوئے علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014 ھ/ 1605 ء) لکھتے ہیں:
”أي إزاره عن كعبيه، والمطول سرواله إلى الأرض كبرا و اختيالا“
ترجمہ:یعنی غرور و تکبر کے طورپر اپنے ازار کو ٹخنوں سے نیچے تک لٹکانے والا اور اپنے پاجامہ کو زمین تک لمبا رکھنے والا۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج 5، ص 1909، دار الفكر، بيروت)
یونہی مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391 ھ/ 1971 ء) لکھتے ہیں: ”یعنی جو فیشن کے لیے ٹخنوں سے نیچا پاجامہ تہبند استعمال کریں، جیسے آجکل جاہل چودھریوں کا طریقہ ہے۔“ (مرآۃ المناجیح، ج 4، ص 244، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3805
تاریخ اجراء: 07 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 05 مئی 2025 ء