
مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی
مصدق: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Gul-3334
تاریخ اجراء: 23 جمادی الاولی 1446 ھ/ 26 نومبر 2024 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا ٹوٹے ہوئے برتن کو استعمال کیا جاسکتا ہے،اگر استعمال کرسکتے ہیں تو کیا ٹوٹی ہوئی جگہ سے بھی کھا پی سکتے ہیں یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
ٹوٹے ہوئے برتن کا استعمال جائز ہے، گناہ نہیں ہے، البتہ خاص اس ٹوٹی ہوئی جگہ سے کھانے پینے کی ممانعت حدیث میں وارد ہوئی ہے، یہ ممانعت محدثین کے نزدیک حرام وناجائز کے درجے والی نہیں ہے، بلکہ مرادنا پسندیدگی ہے۔ اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ کی صفائی صحیح طریقے سے نہیں ہوسکے گی، یہاں سے کھانا پینا، غیر نظیف جگہ سے کھانا پینا کہلائے گا۔ نیز جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے اس جگہ سے منہ لگا کر پئیں گے تو ہونٹ اس جگہ صحیح جم نہیں سکیں گے یوں پانی، نیچے کپڑوں پر گرنے کا اندیشہ ہے جس سے کپڑے خراب ہوجائیں گے، اس لئے اس سے منع فرمایا گیا۔
ٹوٹے ہوئے برتن کا استعمال جائز ہے، صحیح بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے:
”عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه أن قدح النبي صلى الله عليه و سلم انكسر فاتخذ مكان الشعب سلسلة من فضة قال عاصم رأيت القدح و شربت فيه“
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیالہ ٹوٹ گیا تو اسے چاندی کی تار سے باندھا گیا، حضرت عاصم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے اور اس میں سے پانی بھی پیا ہے۔(بخاری شریف جلد 4، صفحہ 83، دار طوق النجاۃ)
امام طحاوی رحمہ اللہ اسی طرح کی حدیث ذکرکرنے کے بعد شرح مشکل الآثار میں فرماتے ہیں:
” قال أبو جعفر: فاحتمل أن يكون ذلك كان مما فعله رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه، فإن كان ذلك كذلك كان مما فيه أعظم الحجة فی إباحته, و إن كان ذلك كان من أنس بن مالك بعده، ففی ذلك ما قد دل أن لا بأس بالشرب فی الاناء الذي هو كذلك عند أنس بن مالك۔“
امام ابوجعفررحمہ اللہ(خود امام طحاوی) نے فرمایا کہ ان الفاظ میں اس بات کا بھی احتمال موجود ہے کہ یہ باندھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہوا ہو، اگر ایسا ہو تو یہ بہت بڑی دلیل ہوگی اس پر کہ اس طرح کے پیالے کو استعمال کرنا، جائز ہے۔ اگر یہ باندھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ہوا ہے توبھی اس میں دلیل موجود ہے کہ ایسے برتن سے پینے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک کوئی حرج نہیں ہے۔ (شرح مشکل الآثار جلد 4، صفحہ 40، مؤسسۃ الرسالۃ)
بہارشریعت میں ہے: ”ٹوٹے ہوئے برتن کو چاندی یا سونے کے تار سے جوڑنا، جائز ہے اور اُس کا استعمال بھی جائز ہے، جبکہ اُس جگہ سے استعمال نہ کرے۔ جیساکہ حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلَّم کا لکڑی کا پیالہ تھا، وہ ٹوٹ گیا تو چاندی کے تار سے جوڑا گیا۔ اور یہ پیالہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا۔“(بھار شریعت جلد 3، حصہ 16، صفحہ 398، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے کھانے پینے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ سنن ابی داؤد شریف کی حدیث پاک میں ہے:
”عن أبی سعيد الخدری، أنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من ثلمة القدح، و أن ينفخ فی الشراب“
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے سے منع فرمایا ہے اور پینے والی چیز میں پھونک مارنے سے بھی منع فرمایا ہے۔(سنن ابی داؤد جلد 3، صفحہ 337، المکتبۃ العصریۃ)
امام طحاوی رحمہ اللہ اسی طرح کے الفاظ ِ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”فلم يكن هذا النهی من رسول الله صلى الله عليه و سلم على طريق التحريم بل كان على طريق الاشفاق منه على أمته و الرأفة بهم و النظر لهم۔“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے یہ ممانعت حرام کے درجے کی نہیں ہے، بلکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت پرشفقت، نرمی اور ان کی بھلائی کیلئے ہے۔(شرح معانی الآثار جلد 4، صفحہ 276، عالم الکتب)
ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے کی ممانعت کی وجہ بیان کرتے ہوئے لمعات التنقیح اورمرقاۃ المفاتیح میں فرمایا:
”(و اللفظ للمرقاۃ) قال الخطابی:انما نهى عن الشرب من ثلمة القدح لأنها لا تتماسك عليها شفة الشارب، فانه اذا شرب منها ينصب الماء و يسيل على وجهه و ثوبه۔ زاد ابن الملك: أو لأن موضعها لا يناله التنظيف التام عند غسل الاناء“
ترجمہ: امام خطابی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے سے اس لئے منع فرمایا گیا کہ اس جگہ پر پینے والے کے ہونٹ جم نہیں سکیں گے، اگر اس جگہ سے پیے گا تو پانی اس کے چہرے اور کپڑوں پرگر جائے گا۔ علامہ ابن الملک رحمہ اللہ نے اس وجہ کا بھی اضافہ فرمایا کہ برتن دھوتے وقت اس جگہ کی مکمل صفائی نہیں ہوسکے گی۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 7، صفحہ 2753، دار الفکر)
مرآۃ المناجیح میں ہے: ”خواہ پیالہ کا کنارہ کچھ ٹوٹا ہوا ہو یا پیالہ کے وسط میں سوراخ ہو، اس سے پانی وغیرہ مطلقا منع ہے کہ یہ جگہ منہ سے اچھی طرح نہیں لگتی جس سے پانی وغیرہ بہہ کرکپڑوں پرگرتا ہے، کچھ منہ میں جاتا ہے، کچھ کپڑے ترکرتا ہے، نیز یہ جگہ پھر اچھی طرح سے صاف بھی نہ ہوسکے گی اور ممکن ہے کہ ٹوٹا ہوا کنارہ ہونٹ کو زخمی کردے زخم کا خون، پانی اوربرتن کو ناپاک کردے ،بہرحال اس حکم میں بھی بہت حکمتیں ہیں۔“(مرآۃ المناجیح جلد 6، صفحہ 78، نعیمی کتب خانہ)
امیر اہلسنت حضرت مولانا محمد الیاس عطارقادری دامت برکاتھم العالیہ کے ملفوظات پر مشتمل رسالے ”کیا جنت میں والدین بھی ساتھ ہوں گے؟“ میں ہے: ”ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا، ناجائز و گناہ نہیں ہے، البتہ جس طرف سے برتن ٹوٹا ہوا ہے یا دراڑ پڑی ہے تو اس طرف سے پینا مکروہ تنزیہی یعنی ناپسندیدہ ہے، لہذا اس سے بچنا چاہیے، ہاں اگر دوسری جگہ سے پیا جس طرف دراڑ نہیں تو پھر یہ مکروہ نہیں ہے۔“ (کیا جنت میں والدین بھی ساتھ ہوں گے، صفحہ 44، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم