
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ کسی شخص نے تھیلیسمیا کے مریضوں کےلئے خون دیا۔ خون لینے والے ادارے کو بعد میں کسی دوسرے مریض، مثلا زخمی کو ایمرجنسی میں وہ خون دینے کی اجازت ہوگی یا نہیں؟ ادارے کا پہلے سے ایسا کوئی ارادہ نہیں لیکن ایمرجنسی میں ایسا کرنا کیسا ہے ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں تھیلیسمیا کے مریضوں کے لئے خون اکٹھا کرنے والے ادارے کے لئے حکم یہی ہےکہ وہ یہ خون تھیلیسمیا کے مریضوں کو لگائے، البتہ اگر کوئی ایمر جنسی کیس آجائے اور کوئی متبادل انتظام نہ ہو سکے، تو بوقتِ ضرورت یہ خون کسی دوسرے مریض کو لگانے میں حرج نہیں۔
اس مسئلہ کی مکمل تفصیل یہ ہے کہ جو ادارہ مخصوص مریضوں کے لئے خون اکٹھا کرتا ہے، تو گویا اس کی جانب سے وعدہ ہوتا ہے کہ یہ خون ان مریضوں ہی کو لگایا جائے گا ،ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں، لہذا اس ادارے کو اپنے وعدے کی پاسداری کرنی ہو گی کہ قرآن و حدیث میں وعدہ پورا کرنے کی بہت تاکید بیان ہوئی۔ البتہ اگر کوئی اس وعدے کی پاسداری نہیں کرتا،تو اس کی درج ذیل تین صورتیں ہیں:
(1) خون اکٹھا کرتے وقت ہی نیت ہو کہ ہم اپنے کہے کے مطابق عمل نہیں کریں گے، بلکہ یہ خون تھیلیسیمیا کے علاوہ دیگر مریضوں کو بھی لگائیں گے، تو بلا ضرورتِ شرعی یہ صورت ناجائز، حرام اور گناہ ہے، اسی پر قرآن و حدیث میں وعیدات بیان ہوئیں اور اسے ہی منافق کی علامات میں سے شمار کیا گیا ہے۔
(2) خون اکٹھا کرتے وقت تو مخصوص مریضوں کو لگانے کی نیت تھی ،لیکن بعد میں بلا وجہ دوسرے مریضوں کو بھی لگادیا، تو یہ صورت مکروہ و ممنوع ہے۔
(3) خون اکٹھا کرتے وقت مخصوص مریضوں کو لگانے کی نیت تھی، لیکن بعد میں کوئی ایمر جنسی کیس آگیا، جہاں مریض کو فوری خون کی ضرورت ہے اور کوئی متبادل انتظام بھی نہیں ہو سکتا، تو ایسی صورت میں بلاکراہت اس مریض کو خون لگانے کی اجازت ہے۔
مشورہ: مخصوص مریضوں کے نام پر خون اکٹھا کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ وہ اس اعلان کے ساتھ خون جمع کریں کہ بوقتِ ضرورت یہ خون دیگر مریضوں کو بھی لگایا جا سکتا ہے یا پھر ایمر جنسی کیسز کے لئے الگ سے کچھ خون جمع کر لیں، تاکہ کسی قسم کی پیچیدگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اللہ جلّ شانہ وعدہ پورا کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ-)
ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! تمام عہد پورے کیا کرو۔ (پارہ 6، سورۃ المائدہ، آیت 1)
مزید ایک جگہ ارشاد فرماتا ہے:
(وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ- اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُـوْلًا)
ترجمہ کنز العرفان:اور عہد پورا کرو بیشک عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (پارہ 15، سورہ بنی اسرائیل، آیت 34)
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها:اذا اؤتمن خان واذا حدث كذب واذا عاهد غدر واذا خاصم فجر
ترجمہ:جس میں چار چیزیں ہوں، وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے کوئی ایک خصلت ہو، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: (1) جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے،تو وہ اس میں خیانت کرے (2) جب بات کرے، تو جھوٹ بولے (3) جب وعدہ کرے،تو اسے توڑ دے (4) اور جب جھگڑا کرے، تو اس میں گالی دے۔ (صحیح بخاری، ج 1، ص 16، مطبوعہ،دار طوق النجاۃ)
وعدہ کے لئے الفاظِ وعدہ ہونا ہی ضروری نہیں،جیساکہ منگنی کو بھی وعدہ نکاح کہا گیا ہے۔چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: ”نسبت صرف ایک اقرار و وعدہ ہے اور ایک جگہ نسبت کر کے چھڑا لینا،خلف وعدہ جس کی تین صورتیں ہیں: اگر وعدہ سرے سے صرف زبانی بطور دنیا سازی کیا اور اسی وقت دل میں تھا کہ وفا نہ کریں گے، تو بے ضرورتِ شرعی وحالتِ مجبوری سخت گناہ و حرام ہے، ایسے ہی خلافِ وعدہ کو حدیث میں علاماتِ نفاق سے شمار کیا۔۔ اور اگر وعدہ سچے دل سے کیا پھر کوئی عذر مقبول و سبب معقول پیدا ہوا تو وفا نہ کرنے میں کچھ حرج کیا ادنی کراہت بھی نہیں، جبکہ اس عذر و مصلحت کو اس وفائے وعدہ کی خوبی و فضیلت پر ترجیح ہو۔۔ اور اگر کوئی عذر و مصلحت نہیں بلا وجہ (وعدہ پورا نہ کیا جیسے کہ بغیر کسی معقول وجہ کے) نسبت چھڑائی جاتی ہے تو یہ صورت مکروہ تنزیہی ہے۔۔یہ بات اس تقدیر پر بے جا و خلافِ مروت ہے،مگر حرام و گناہ نہیں، حضور پرنور سیدالعالمین صلی اﷲتعالیٰ علیہ و سلم فرماتے ہیں:
لیس الخلف ان یعد الرجل و من نیتہ ان یفی و لکن الخلف ان یعدالرجل و من نیتہ ان لایفی رواہ ابو یعلی فی مسند عن زید بن ارقم رضی ﷲتعالی عنہ بسند حسن
ترجمہ: وعدہ خلافی یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت وعدہ پورا کرنے کی ہو، بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے حالانکہ اس کی نیت اس وعدہ کو پورا نہ کرنے کی ہو۔ اس روایت کو امام ابو یعلی نے اپنی مسند میں حضرت زید بن ارقم رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
اس صورت میں یہ کراہت جب ہی دفع ہوگی کہ پہلے جہاں نسبت کی تھی وہ بخوشی اجازت دے دیں۔“(فتاوی رضویہ، ج 12، ص 281 تا 283، مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
اشکال: جس طرح چندے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس مد میں لیا جائے،اسی میں استعمال کرنا ضروری ہے،تو یہاں اپنی تفصیل کے مطابق یہ احکام لاگو نہیں ہوں گے؟
جواب: یہاں چندے کے احکام لاگو نہیں ہوں گے،کیونکہ چندے کا معاملہ خون سے بہت مختلف ہے،مثلاً چندہ خرچ ہونے تک، دینے والے کی ملک پر باقی رہتا ہے یا متولی کے قبضہ کر لینے سے مسجد و مدرسہ وغیرہ کی ملکیت میں چلا جاتا ہے، نیز اسے ہلاک کرنے والے پر تاوان لازم آتا ہے،وغیرہ، جبکہ خون کا معاملہ ایسا نہیں، کیونکہ یہ انسانی جزء ہے ،جو نہ مال ہے اور نہ ہی ملکیت کا محل ہے کہ خریدوفروخت، ہبہ اور صدقہ وغیرہ کے ذریعہ کسی دوسرے کو اس کا مالک بنا یا جا سکے، لہذا اس پر چندے والے احکام بھی لاگو نہیں ہوں گے۔
علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ مال کی تعریف ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
المال اسم لغیر الآدمی خلق لمصالح الآدمی وامکن احرازہ والتصرف فیہ علی وجہ الاختیار
ترجمہ: مال، آدمی کے علاوہ ہر اس چیز کانام ہے جسے آدمی کے مصالح اور فوائد کے لئے پیدا کیا گیا ہو اور اسے ذخیرہ کیا جاسکتا ہو اور بالاختیار اس میں تصرف کرنا بھی ممکن ہو۔(فتاوی شامی، ج 7، ص 8، مطبوعہ کوئٹہ)
انسانی اجزاء ملکیت کا محل نہیں، چنانچہ بدائع میں ہے:
و الحر بجميع اجزائه ليس محلا للملك
ترجمہ: اور آزاد انسان اپنے تمام اجزاء سمیت ملکیت کا محل نہیں۔ (بدائع الصنائع، ج 2، ص335، مطبوعہ، دار الکتب العلمیہ)
انسانی اجزاء مال نہیں،کہ ان کی خریدوفروخت ہو سکے، چنانچہ العنایہ شرح ہدایہ میں ہے:
و جزء الآدمی لیس بمال۔۔ و ما لیس بمال لا یجوز بیعہ
ترجمہ: اور آدمی کا جز مال نہیں اور جو چیز مال نہ ہو، اس کی خریدوفروخت جائز نہیں۔(العنایہ شرح ہدایہ، ج 6، ص 423، مطبوعہ، دار الفکر)
خون نہ مال ہے اور نہ ہی انسان اس کا مالک ہے، لہذا اس کا ہبہ بھی درست نہیں،چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:
(ومنها) ان يكون مالا متقوما فلاتجوز هبة ما ليس بمال اصلا،كالحر والميتة و الدم… (و منها)ان يكون مملوكا فی نفسه فلا تجوز هبة المباحات … (و منها) ان يكون مملوكا
ترجمہ: ہبہ کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ ہبہ کی گئی چیز مالِ متقوم ہو، پس جو چیز اصلاً مال ہی نہیں،جیسے آزاد ، مردار اور خون، تو اس کا ہبہ جائز نہیں۔ اور یہ بھی شرط ہے کہ وہ چیز فی نفسہ مملوک ہو،پس مباح چیزوں کا ہبہ جائز نہیں۔ اور یہ بھی شرط ہے کہ وہ چیز واہب کی ملک ہو۔ (بدائع الصنائع، ج 6، ص 119، مطبوعہ، دار الکتب العلمیہ)
اور صدقہ میں بھی مال کا مالک بنایا جاتا ہے،چنانچہ فتح القدیر میں ہے:
وحقيقة الصدقة تمليك المال
ترجمہ: اور صدقہ کی حقیقت مال کا مالک بنانا ہے۔ (فتح القدیر، ج2، ص267، مطبوعہ،دار الفکر)
خون کو تلف کرنے والے پر تاوان لازم نہیں ،جیسے انسانی دودھ کے بارے میں الہدایہ اور اس کی شرح فتح القدیر میں ہے:
’’بین القوسین من فتح القدیر ’’و لا بيع لبن امراة فی قدح۔۔ و لنا انه جزء الآدمی وهو بجميع اجزائه مكرم مصون عن الابتذال بالبيع، ولا فرق فی ظاهر الرواية بين لبن الحرة والامة (لا يجوز بيعه ولا يضمن متلفه و هو مذهب مالك و احمد)‘‘
ترجمہ:اور پیالے میں عورت کے دودھ کی بیع جائز نہیں اور ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ انسان کا جزء ہے اور انسان اپنے تمام اجزاء کے ساتھ مکرم اور بیع کے سبب ہونے والی تحقیر و تذلیل سے محفوظ ہے اور ظاہر الروایہ میں آزاد اور لونڈی کے دودھ میں کوئی فرق نہیں ۔عورت کے دودھ کی بیع جائز نہیں اور اس کے تلف کرنے والے پر ضمان بھی لازم نہیں،یہی مذہب امام مالک اور امام احمد علیہما الرحمۃ کا ہے۔(الھدایہ مع فتح القدیر، ج6، ص 423تا 424، مطبوعہ،دار الفکر)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: محمد فرحان افضل عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: GUJ-0031
تاریخ اجراء: 15ربیع الاول1447ھ/09ستمبر2025ء