والدین کا خرچہ اولاد پر کب اور کتنا لازم ہے؟

والدین کا خرچہ اولاد پر کب اور کتنا لازم ہوتا ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-9101

تاریخ اجراء:18ربیع الاول 1446 ھ/ 23ستمبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے  بارے میں کہ والدہ کا انتقال ہو جائے اور والد صاحب بوڑھے ہوں  اور بیٹے  کمائی کرتے ہوں، تو والد صاحب  کا نان نفقہ اولاد پر کب لازم ہوتا اور کب نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   والدین کے صرف بوڑھے ہونے سے ان کا خرچہ اولاد پر لازم نہیں ہوجاتا بلکہ ان کے محتاج و ضرورت مند ہونے سے ان کا خرچہ اولاد پر لازم ہوتاہے، لہٰذا جب ماں باپ  دونوں یا کوئی ایک  محتاج ہو کہ نہ روپیہ پیسہ ہے یا غلہ و سامان  تو ان کا نفقہ اولاد پر واجب ہے، جب کہ اولاد  صاحب نصاب ہو اور نصاب سے مراد قرض و حاجت اصلیہ سے زائد نصاب کی مقدار کسی بھی شے کا زیادہ ہونا، روپیہ پیسہ ہو یا سامان۔ بہرحال ایسی صاحبِ نصاب اولاد پر تنگی کا شکار والدین کا ضروری خرچہ  واجب ہے اور اگراولاد میں  اتنی مالی  وسعت نہ ہو کہ والدین کے اخراجات دے سکے  توکم از کم اپنے  والدین کو کھانے پینے میں اپنے ساتھ ضرورشریک کرے۔  

   والدین کے ساتھ حسنِ  سلوک کا حکم دیتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: (وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ                اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْہَرْہُمَا وَ قُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا) ترجمہ کنز العرفان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت، نرم بات کہنا۔(القران الکریم، پارہ 15، سورہ بنی اسرائیل، آیت 23)

   مذکورہ بالا آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا،…… ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو، کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔“

   تفسیر میں مزید  فرمایا: (وَ اخْفِضْ لَہُمَا: اور ان کیلئے جھکا کر رکھ۔) اس آیت میں مزید حکم دیا کہ والدین کے ساتھ  نرمی اور عاجزی کے ساتھ پیش آؤ اور ہر حال میں ان کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کرو ، کیونکہ اُنہوں نے تیری مجبوری کے وقت تجھے محبت سے پرورش کیا تھا اور جو چیز اُنہیں درکار ہو وہ اُن پر خرچ کرنے میں دریغ نہ کرو۔ گویا زبانی کے ساتھ ساتھ  عملی طور پربھی ان سے اچھا برتاؤ کرو اوریونہی مالی طور پر بھی ان سے اچھا سلوک کرو کہ ان پر خرچ کرنے میں تأمُّل نہ کرو۔(صراط الجنان، جلد 5، صفحہ 440، 444، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سب سے زیادہ حسن سلوک کے مستحق والدین ہیں، اس کے متعلق صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند ابی یعلی، صحیح ابن حبان، جامع الاصول، مسند الصحابہ اور جمع الفوائد کی حدیث پاک میں ہے: و اللفظ للاول: عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال: يا رسول الله، من أحق الناس بحسن صحابتي؟ قال: ”أمك، قال: ثم من؟ قال: ثم أمك، قال: ثم من؟ قال: ثم أمك  قال: ثم من؟ قال: ثم أبوك“ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ  اللہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ، سب سے زیادہ میرے  حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں  (یعنی ماں  کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں  نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا :’’تمہاری ماں۔ انہوں  نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے پھر ماں کا فرمایا: انہوں  نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، جلد 08، صفحہ 2، مطبوعہ دار طوق النجاة)

   فقہ حنفی کے مشہور و معروف فقیہ حضرت علامہ ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیٹے پر والدین کا نفقہ لازم ہونے کے بارے میں  لکھتے ہیں ”و يجبر الرجل على نفقة أبويه إذا كانا محتاجين و إن لم يكونا زمنين و ذلك لقول الله تعالى: ﴿و صاحبهما في الدنيا معروفا﴾، و ليس من المعروف تركهما جائعين مع القدرة على سد جوعتهما. و أيضا قال النبي  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم «أنت و مالك لأبيك»، و عمومه يقضي جواز أخذ مال الابن في حال اليسار و الإعسار، إلا أن الفقهاء متفقون على أنه لا يجوز له أخذه بغير رضاه في حال اليسار، فخصصناه، و بقي حكم العموم في حال الإعسار في مقدار الحاجة“ ترجمہ: والدین جب محتاج ہوں اگرچہ اپاہج نہ ہوں تو بیٹے  کو ان کا نفقہ دینے پر مجبور کیا جائے گایہ  نفقہ کا لازم ہونا اس لئے ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: (ترجمہ کنز العرفان: اور دنیا میں اچھی طرح ان کا ساتھ دے)اور ان کی بھوک ختم کرنے پر قدرت کے باوجود، انہیں بھوکا رہنے دینا  اچھی طرح ساتھ دینا نہیں کہلاتااور  مرد پر  نفقہ لازم ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: تو اور  تیرا مال تیرے باپ  کا ہے۔ اس حدیث کا عموم   تو اس بات کا تقاضا کرتا تھاکہ  والد تنگدست ہو یا نہ ہوبہر صورت والد اپنے بیٹے کا مال لے سکتا ہے، لیکن فقہاء کرام  کا اتفاق ہے  کہ اگر والد تنگدست نہ ہو، تو بیٹے کا مال اس کی مرضی کے بغیر لینا جائز نہیں، تواس حدیث مبارک کو ہم نے خاص کردیا اور اس کہ بعد  تنگی کی حالت میں بالعموم  ( یعنی اپاہج ہوں  یا نہ ہوں)  بقدر حاجت لینے کا جواز باقی رہ گیا۔(شرح مختصر  الطحاوی للجصاص، جلد 5، صفحہ 300، مطبوعہ دار السراج)

   والدین محتاج ہوں یعنی ان کے پاس خود کا مال نہ ہو جو ضرورت کے لئے خرچ کرسکیں تو بیٹے کے غنی ہونے کی صورت میں بیٹے پر نفقہ واجب ہے اس بارے میں بحر الرائق  شرح کنز الدقائق میں ہے: (قوله و لأبويه و أجداده و جداته لو فقراء) أي تجب النفقة لهؤلاء أما الأبوان فلقوله تعالى (و صاحبهما في الدنيا معروفا) أنزلت في الأبوين الكافرين و ليس من المعروف أن الابن يعيش في نعم الله تعالى و يتركهما يموتان جوعا…… و شرط الفقر؛ لأنه لو كان ذا مال فإيجاب النفقة في ماله أولى من إيجابها في مال غيره…… و اطلق فی الابن و لم یقید فی الغنی مع انہٗ مقید بہ لما فی شرح الطحاوی و لایجبر الابن علٰی نفقۃ أبويه المعسرین اذاکان معسراً إلا إذا كان بهما زمانة أو بهما فقر فقط فإنهما يدخلان مع الابن و يأكلان معه و لا يفرض لهما نفقة على حدة“ ترجمہ: والدین، دادا، دادی اگر تنگدست ہوں تو ان  کا نفقہ  بیٹے پر لازم ہے، والدین  کانفقہ اس  لئے لازم ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے (ترجمہ کنز العرفان: اور دنیا میں اچھی طرح ان کا ساتھ دے)یہ آیت کافر والدین کے بارے میں  نازل ہوئی اور  نیکی یہ نہیں کہ بیٹا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں عیش کرے اور والدین کو بھوکا مرنے کے لئے چھوڑ دے…… فقیر ہونے کی شرط اس لئے  ہے کہ اگر ان  کے پاس مال ہے  تو نفقہ کو انہی کے مال میں واجب قرار دینا دوسرے کے مال میں واجب قرار دینے سے اولیٰ ہے…… یہاں بیٹے کے بارے مطلق حکم بیان کیا ہے، بیٹے کی کیفیت کو صاحب نصاب ہونے سے مقید نہیں کہ حالانکہ نفقہ کا وجوب  بیٹے کے صاحب نصاب ہونے سے مقید ہے جیسا کہ شرح الطحاوی میں ہے اور بیٹا جب خود تنگدست  ہو تو اسے  تنگدست والدین کے نفقہ پر مجبور نہیں کیا جائے گا ہاں البتہ اگر والدین  اپاہج ہوں یا یہ خود فقیر ہوں تو یہ بیٹے کے کھانے پینے  میں شریک ہوں گے  اور اس کے ساتھ ہی کھائیں پئیں گے، ان کو علیحدہ سے نفقہ دینا لازم نہیں ہوگا۔(بحر الرائق، ج 4، ص 223، دار الكتاب الإسلامي)

   جب تک کسی کے پاس اپنی حاجت کی بقدرمال ہو تو اس کا نفقہ کسی دوسرے پر لازم نہیں ہوتا جیسا کہ  علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”و الظاهر أن المراد به ما كان من غير جنس النفقة، إذ لو كان يملك دون نصاب من طعام أو نقود تحل له الصدقة، و لا تجب له النفقة فيما يظهر؛ لأنها معللة بالكفاية، و ما دام عنده ما يكفيه من ذلك لا يلزم غيره كفايته تأمل“ ترجمہ: اور ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ چیز ہے جو نفقہ کی جنس سے نہ ہو، کیونکہ اگر یہ نصاب سے کم طعام یا نقدی  کا مالک ہو، تو اس کے لیے صدقہ وصول کرنا جائز ہےاور ظاہر یہی ہے کہ  اس کے لیے نفقہ واجب نہیں ہو گا، کیونکہ  نفقہ  کے وجوب کا سبب کفایت کا اہتمام کرنا ہے، تو جب تک اس کے پاس بقدرِ کفا یت مال موجود ہے، تب تک کسی دوسرے پر اس کی کفایت لازم نہیں ہو گی۔ اس میں غور کرو۔(رد المتحتار،ج5،ص368، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   نفقہ کے معاملہ میں  اولاد کی تنگدستی و   مالداری سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں محیط برہانی میں  ہے: ”ثم لا بد من معرفة حد اليسار الذي تعلق به وجوب هذه النفقة. ذكر ابن سماعة عن أبي يوسف رحمهما الله: أنه اعتبر نصاب الزكاة……… و ذكر شيخ الإسلام خواهر زاده: أن المعتبر بسائر (ما) يحرم الصدقة بأن يملك ما فضل عن حاجته ما يبلغ مائتي درهم فصاعدا و هو الصحيح، و هذا لأنه لم يشترط بوجوب صدقة الفطر غنى موجبا للزكاة، و إنما شرط غنى يحرم الصدقة، فكذا في حق إيجاب النفقة“ ترجمہ: پھر مالداری کی  اُس مقدار کو بھی جاننا ضروری ہےکہ جس کے  ہوتے ہوئے نفقہ واجب ہوجاتا ہے، تو ابن سماعۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  نے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے  زکوٰۃ کے نصاب کا اعتبار کیا ہے……… شیخ  الاسلام خواہر زادہ  نے  ذکر کیا ہے کہ :اعتبار اُس مالداری کا ہے جس کے ہوتے ہوئے صدقہ واجبہ لینا حرام ہو  اور صدقہ لینے کی حرام ہونے کی صورت یہ ہے کہ یہ شخص حاجت اصلیہ  سے زائد ایسے  مال کا مالک  ہو جس کی مالیت 200 درہم کو پہنچتی ہواور یہ معیار اس لئے ہے کہ صدقہ فطر میں ایسے مالدار ی کی شرط نہیں کہ جس سے زکوٰۃ واجب ہو،بلکہ ایسی مالداری بھی کافی ہے کہ جس  سے صدقہ لینا حرام ٹھہرتا ہے، لہذا  نفقہ کے وجوب میں بھی یہی حکم ہوگا۔(المحيط البرهاني في الفقه النعماني، ج 3، ص 584، دار الكتب العلمية، بيروت)

   یونہی فتاوی ہندیہ میں ہے: ”و يجبر الولد الموسر على نفقة الابوين المعسرين مسلمين كانا او ذميين قدرا على الكسب، او لم يقدرا ……… اليسار مقدر بالنصاب فيما روي عن ابي يوسف رحمه الله تعالى، و عليه الفتوى و النصاب نصاب حرمان الصدقة“ ترجمہ: مالدار بیٹے کو، تنگدست والدین کے نفقہ پر مجبور کیا جائے گا خواہ  والدین مسلمان ہوں یا کافر، کمانے پر قادر ہو ں یا قادر نہ ہوں……… امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی قول کے مطابق اس معاملہ میں مالداری میں نصاب کو معیار بنایا گیا  ہے اور  فتویٰ بھی آپ ہی کے قول پر ہے اور نصاب سے مراد  وہ نصاب ہے جس کے ہوتے ہوئے  صدقہ واجبہ لینا حرام ہوجاتا ہے۔(فتاوی ھندیہ، ج 1، ص 564، دارالفکر بیروت)

   والدین کا نفقہ  بیٹا اور بیٹی دونوں پر لازم ہے اس بارے میں علامہ علاء الدین الحصکفی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ’’النفقۃ لاصولہ الفقراء و لو قادرین علی الکسب بالتسویۃ بین الابن و البنت و المعتبر فیہ القرب و الجزئیۃ‘‘ ترجمہ: فقیر والدین کے نفقہ میں بیٹا اور بیٹی برابر کے شریک ہیں اگرچہ وہ کمانے پر قادر ہوں اور اس میں اعتبار قرابت اور جزئیت کا ہے۔(الدر المختار، ج 5، ص 355، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   ایک بیٹا کم مالدار اور دوسرا زیادہ مالدار ہو تو دنوں پر نفقہ برابر لازم ہےاس بارے  میں  علامہ ابن عابدین الشامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  فرماتے ہیں: ’’و کذا کا ن للفقیر ابنان احدھما فائق فی الغنی و الآخر یملک نصابا ًفھی علیھما سویۃ‘‘ ترجمہ: اسی طرح اگر کسی کے دوبیٹے ہوں ایک مال دار ہو جبکہ دو صرف مالک نصاب ہوں تو نفقہ میں دونوں برابر ہوں گے۔(الدر المختار، ج 5، ص 355، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

                                                                           والدین کا نفقہ کب واجب ہے اور کب واجب نہیں اس بارے میں فتاوی امجدیہ میں ہے: ماں باپ جب محتاج ہوں تو ان کا نفقہ اولاد پر واجب ہے، جب کہ اولاد مالداریعنی صاحب نصاب ہو…… صورت مستفسرہ  میں اگر لڑ کا صاحب نصاب ہو تو والدین کو ان کے مناسب خرچ کے لائق دیتا رہے، اس میں روپیہ کی تعداد شرع کی جانب سے مقرر نہیں اور اگر اتنی وسعت نہ ہو کہ والدین کے اخراجات دیتا رہے تو والدین کو کھانے پینے میں اپنے ساتھ شریک کرے… …بظاہر صورت مسئولہ میں لڑکے کی حالت ایسی نہیں معلوم ہوتی کہ والدین کے اخراجات علیحدہ دے سکے کہ صرف بیس روپے کا ملازم ہے اور بی بی بچے بھی رکھتا ہے، بیس روپے میں خود ان کی بسر اوقات دقت سے ہوتی ہوگی، لہذا چاہئے کہ والدین کو خورد و نوش میں شریک کرے۔“(فتاوی امجدیہ، ج 2، ص 299، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم