والدین سے حقوق نہ ملنے پر اولاد کا بُرا رویہ اختیار کرنا کیسا؟

والدین اولاد کے حقوق ادا نہ کریں تو اولاد کا والدین سے بُرا رویہ رکھنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر والدین اپنے بیٹے کا حق ادا نہ کریں مثلاً نہ تو اس کی تربیت کریں اور نہ ہی اس کو تعلیم دلوائیں، بلکہ اس سے کام کاج کروائیں، تو اب بیٹا بڑا ہو کر والدین سے بدتمیزی سے پیش آتا ہے کہ آپ نے میرا حق کیوں نہیں ادا کیا؟، تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا وہ بیٹا بھی اپنے والدین کا حق ادا نہ کرے، جیسے اس کے والدین نے اس کا حق ادا نہیں کیا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

والدین جیسے بھی ہوں، اولاد پربہر صورت ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ضروری ہے، اگر والدین اپنی اولاد کے ساتھ بد سلوکی کریں، ان کا حق نہ دیں، تو تب بھی اولاد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ والدین کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے، انہیں برا بھلا کہے، یا بدلے میں ان کا حق ادا نہ کرے، اس لیے کہ قرآن کریم میں مطلقاًان کے ساتھ اچھا سلوک کرنےاور ان کے ساتھ نرم لہجے میں گفتگو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انہیں ’’اُف‘‘ تک کہنے سے منع کیا گیا ہے، لہذا اس بیٹے پر والدین کا حق ادا کرنا لازم و ضروری ہے۔

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

(وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا)

ترجمہ کنز العرفان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت، نرم بات کہنا۔ (القرآن، پارہ 15، سورۃ بنی اسرائیل، آیت: 23)

والدین اگرچہ ظلم کریں، مگر پھر بھی ان کے متعلق اللہ کے حکم پر عمل کیا جائے گا، چنانچہ حدیث پاک میں ہے

عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: من أصبح مطيعا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة و إن كان واحدا فواحدا. و من امسی عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار و إن كان واحدا فواحدا۔ قال رجل: و إن ظلماه؟ قال: و إن ظلماه و إن ظلماه و إن ظلماه

ترجمہ: حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کے متعلق اللہ تعالی کے حکم پرعمل کر رہا ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو، تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور جو شخص اس حال میں شام کرے کہ وہ اپنے والدین کے متعلق اللہ تعالی کے حکم پرعمل پیرانہ ہو تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک(حیات) ہو(اور وہ اس کے متعلق اللہ تعالی کے حکم پر عمل پیرا نہ ہو) تو جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ حضورصلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد 3، صفحہ 1382، حدیث: 4943، المكتب الإسلامي، بيروت)

اس حدیث پاک کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1391ھ / 1971ء) لکھتے ہیں: ”ظلم سے مراد دنیاوی ناانصافی ہے دینی گناہ مراد نہیں مثلًا ایک باپ اپنے بیٹوں میں سے ایک سے محبت کم کرتا ہے دوسری اولاد کو اس پر ترجیح دیتا ہے یا اسے کسی حق سے محروم کردیتا ہے، مگر یہ مظلوم لڑکا ان کی خدمت ضرور کرے اس کی عوض الله تعالٰی اسے مالا مال کردے گا آزما کر دیکھ لو ماں باپ کی خدمت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ (مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 542، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

فتاوی رضویہ میں ہے ”اگر ناراضی توان کی بلاوجہ شرعی تھی مگر اس نے اس کی پروانہ کی وہ کھنچے تو یہ بھی کھنچ گیا جب بھی مخالف حکم خدا و رسول ہے اسے حکم یہ نہیں دیا گیا کہ ان کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرے بلکہ یہ حکم فرمایا ہے:

و اخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ

(بچھادے ماں اور باپ کے لئے ذلت و فروتنی کا بازو رحمت سے)“ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 559، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4049

تاریخ اجراء: 26 محرم الحرام 1447ھ / 22 جولائی 2025ء