دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ہم سارے بہن بھائی شادی شدہ ہیں، پوچھنا یہ تھا کہ کیا بھائیوں کی کمائی میں بہنوں کا بھی حق ہوتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بھائیوں کی ذاتی کمائی میں بہنوں کا اس معنی میں شرعاً کوئی حصہ مقرر نہیں کہ بھائی جتنی بھی کمائی کرے گا، اس میں سے بہرصورت ایک مخصوص حصہ بہنوں کو دیا جائے گا، ہاں! صاحبِ استطاعت بھائیوں کو چاہئے کہ وہ اچھی نیت کے ساتھ بہنوں کی وقتاً فوقتاً مالی مدد ضرور کیا کریں، کہ یہ بھی صلہ رحمی کی ایک صورت ہے، جو بہت بڑے ثواب کا باعث ہے، البتہ !اگر بہنوں کا نفقہ بھائیوں پر لازم ہونے کی شرائط پائی جائیں، تووہ ادا کرنا ضروری ہو گا۔
رشتہ داروں کے ساتھ صلی رحمی اور احسان کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى﴾
ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا۔ (القرآن، پارہ 14، سورۃ النحل، آیت: 90)
اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ”یعنی اللہ تعالیٰ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رشتے دار قریب کے ہوں یا دور کے، اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں سے حاجت سے زائد کچھ مال انہیں دے کر ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا اور اگر اپنے پا س زائد مال نہ ہو تو رشتہ داروں کے ساتھ محبت سے پیش آنا اور ان کے لئے دعائے خیر کرنا مستحب ہے۔“(صراط الجنان، جلد5، صفحہ370، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہنوں کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
”لا يكون لأحدكم ثلاث بنات أو ثلاث أخوات فيحسن إليهن إلا دخل الجنة“
ترجمہ: تم میں سے جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سُلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات، جلد4، صفحہ318، حدیث: 1912، مطبوعہ: مصر)
بہار شریعت میں ہے ”احادیث میں مطلقاً رشتہ والوں کے ساتھ صلہ کرنے کا حکم آتا ہے قرآن مجید میں مطلقاً ذوی القربیٰ فرمایا گیا مگر یہ بات ضرور ہے کہ رشتہ میں چونکہ مختلف درجات ہیں صلہ رحم کے درجات میں بھی تفاوت ہوتا ہے۔ والدین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے، ان کے بعد ذورحم محرم کا، ان کے بعد بقیہ رشتہ والوں کا علیٰ قدر مراتب۔ صلہ رحم کی مختلف صورتیں ہیں ان کو ہدیہ و تحفہ دینا اور اگر ان کو کسی بات میں تمھاری اِعانت درکار ہو تو اس کا م میں ان کی مدد کرنا، انھیں سلام کرنا، ان کی ملاقات کو جانا، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا ان سے بات چیت کرنا ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا۔“ (بہارِ شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ559، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتاوی رضویہ میں غیرشادی شدہ بہنوں کے نفقہ کے متعلق (جبکہ باپ فوت ہوچکاہو) تفصیل یوں بیان کی گئی ہے: ”بہنوں کا نان ونفقہ بھائی پر واجب ہے دوشرط سے: اول: زید ان کی اعانت پر قادر ہو یعنی اپنی حاجت اصلیہ سے فاضل چھپن روپے(یعنی ساڑھے باون تولے چاندی برابرمال) کا مالک ہو یا ایسا مال نہیں رکھتا بلکہ پیشہ ورہے تو اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے نفقہ سے پس انداز ہوتا ہو جس سے بہنوں کی اعانت کرسکے۔ دوم: بہنیں زیور وغیرہ کوئی مال ذاتی نہ رکھتی ہوں جوان کی حاجت اصلیہ سے زائد چھپن روپے کا ہو، نہ کھانے کے لئے اناج پہننے کےلئے کپڑا یا دام موجود ہو کہ یہ جب تک رہے گا اس قدر نفقہ دوسرے پر واجب نہ ہوگا اگرچہ چھپن روپیہ سے کم کا ہو، نہ مکان اس قابل ہو کہ اس کا ایک حصہ بیچ کر باقی میں گزر کرسکیں، ایسا ہوگا تو بیچ کر خود اپنے نفقہ میں اٹھانا لازم ہوگا جب نہ رہے گا بھائی پر نفقہ آئے گا، نہ وہ عورتیں دستکاری مثل سلائی وغیرہ کے ایسا کررہی ہوں جوان کے نفقہ کو کافی ہو، اگر ایسا ہے تو اپنا نفقہ خود انہیں پر ہے بھائی پر نہیں، ہاں اگر وہ دستکاری نہیں کرتیں، نہ اپنے کسی مال سے اپنی بسر کرسکتی ہیں تو بھائی پر نفقہ واجب ہوگا اور وہ یہ نہ کہہ سکے گا کہ تم سلائی وغیرہ کوئی کام مزدوری کا کرکے اپنا پیٹ پالو، یہ دوشرطیں متحقق ہوں تو نفقہ بھائی پر ہے تنہا اس پر جب کہ ان عورتوں کاوارث صرف وہی ہو ورنہ بقدر میراث جبکہ اس کے سوا ان کا اور کوئی وارث ذی مقدور مثل دوسرے بھائی یا بہن یا دختر کے ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد13، صفحہ452، رضا فاؤنڈیشن، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-4488
تاریخ اجراء:06جمادی الثانی1447ھ/28نومبر2025ء