
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
میں نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی، شادی کے بعد میرے والدین نے مجھے بے دخل کردیا اور کورٹ سے پیپر بھی دیا ہے کہ والدین کا میرے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رہا۔ کیا میرا ان سے تعلق ختم ہو گیا ہے؟ کیا میں ان سے رابطہ و بات چیت نہیں کر سکتا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
والدین نے اگر چہ آپ سے قطع تعلقی کرلی ہے، لیکن اس کے باوجود آپ پرلازم ہے کہ ان کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں، ان سے معافی مانگیں، ان کی منت سماجت کریں یہاں تک کہ وہ راضی ہوجائیں، وہ اگر کھنچیں تو اولاد کواجازت نہیں کہ اولاد بھی کھنچ جائے کہ اولاد کو برابری کرنے کا حکم نہیں بلکہ عاجزی اورنرمی اختیارکرنے کاحکم ہے۔
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
(وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا)
ترجمہ کنز العرفان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت، نرم بات کہنا۔ (القرآن، پارہ 15، سورۃ بنی اسرائیل، آیت: 23)
والدین اگرچہ ظلم کریں، مگر پھر بھی ان کے متعلق اللہ پاک کے حکم پر عمل کیا جائے گا، چنانچہ حدیث پاک میں ہے
”عن ابن عباس قال:قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم: من أصبح مطيعا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة و إن كان واحدا فواحدا. و من امسی عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار و إن كان واحدا فواحدا۔ قال رجل: و إن ظلماه؟ قال: و إن ظلماه و إن ظلماه و إن ظلماه“
ترجمہ: حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کے متعلق اللہ تعالی کے حکم پرعمل کررہاہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو، تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور جو شخص اس حال میں شام کرے کہ وہ اپنے والدین کے متعلق اللہ تعالی کے حکم پرعمل پیرانہ ہو تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کے متعلق اللہ تعالی کے حکم پرعمل پیرانہ ہو) تو جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد 3، صفحہ 1382، حدیث:4943، المكتب الإسلامي، بيروت)
اس حدیث پاک کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سالِ وفات:1391ھ/1971ء) لکھتےہیں: ”ظلم سے مراد دنیاوی ناانصافی ہے دینی گناہ مراد نہیں مثلًا ایک باپ اپنے بیٹوں میں سے ایک سے محبت کم کرتا ہے دوسری اولاد کو اس پر ترجیح دیتا ہے یا اسے کسی حق سے محروم کردیتا ہے، مگر یہ مظلوم لڑکا ان کی خدمت ضرور کرے اس کےعوض الله تعالٰی اسے مالا مال کردے گا آزما کر دیکھ لو ماں باپ کی خدمت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ (مراۃ المناجیح، جلد6، صفحہ542، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
امام اہلسنت، امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا "جس شخص کے والدین اس شخص سے کہیں کہ میرے جنازہ پر بھی ہرگز ہرگز نہ آئے اس شخص کو امام کرنا چاہئے یا نہیں؟"
اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ نے ارشادفرمایا: "والدین اگر بلاوجہ شرعی ناراض ہوں اور یہ ان کی استرضأ میں حدِ مقدور تک کمی نہیں کرتا تو اس پر الزام نہیں اور اس کے پیچھے نماز میں کوئی حرج نہیں اور اگر یہ ان کو ایذا دیتا ہے اس وجہ سے ناراض ہیں تو عاق ہے اور عاق سخت مرتکب کبیرہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی اور امام بنانا گناہ اور اگر ناراضی توان کی بلاوجہ شرعی تھی مگر اس نے اس کی پروانہ کی وہ کھنچے تو یہ بھی کھنچ گیا جب بھی مخالف حکم خدا و رسول ہے اسے حکم یہ نہیں دیا گیا کہ ان کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرے بلکہ یہ حکم فرمایا ہے:
واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ
(بچھادے ماں اور باپ کے لئے ذلت و فرو تنی کا بازورحمت سے)
اس کے خلاف و اصرار سے بھی فاسق ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد6، صفحہ 559، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
صلہ رحمی کرنا رزق اور عمر میں اضافے کا سبب ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”من سرہ ان یبسط لہ رزقہ او ینسا لہ فی اثرہ، فلیصل رحمہ“
ترجمہ: جسے یہ پسند ہو کہ اس کا رزق کشادہ کر دیا جائے اور اس کی عمر دراز کر دی جائے، تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔ (صحیح البخاری، جلد3، صفحہ56، حدیث:2067، مطبوعہ: مصر)
قطع رحمی کے حوالے سے صحیح مسلم میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لا يدخل الجنة قاطع رحم“
ترجمہ: قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، جلد8، صفحہ8، حدیث:2556، مطبوعہ: ترکیا)
نوٹ: صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے حوالے سے دعوت اسلامی کی ویب سائٹ پر ایک رسالہ موجود ہے ، اس کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-4261
تاریخ اجراء: 29ربیع الاول1447 ھ/23ستمبر 2520 ء