دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
حقو ق العباد سے کیا مراد ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حقوق العباد کی دو قسمیں ہیں:
(1) دیون: یعنی اس کے ذمے پر کسی کا جوبھی مال لازم ہے خواہ جائز ذریعے سے ہے مثلا ادھار خریدا تھا، اس کی قیمت دینی ہے، نکاح کیا تھا، ابھی مہر دینا ہے، مزدور لگوایا تھا، اس کی مزدوری دینی ہے وغیرہ، یا ناجائزذریعے سے مال لاز م ہوا مثلا کسی کا مال چوری کیا یا چھین لیا یا کسی سے رشوت لی یاجوئے میں لیاوغیرہ۔
(2) مظالم: یعنی کسی کوکسی بھی قسم کی تکلیف پہنچائی خواہ دین میں پہنچائی یاعزت میں یاجان میں یاجسم میں یامال میں یا صرف دل کو تکلیف پہنچائی۔
یاد رہے کہ! بندوں کے حقوق اس وقت تک معاف نہیں ہوں گے، جب تک کہ بندے اپنے حقوق کو نہ معاف کر دیں، لہٰذا بندوں کے حقوق دنیامیں ہی ادا کردینے یا معاف کرا لینے میں عافیت ہے، ورنہ قیامت میں بڑی مشکلوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔
نوٹ: اس کے متعلق امام اہلسنت، امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کا رسالہ "اعجب الامدادفی مکفرات حقوق العباد" کا مطالعہ بہت مفید رہے گا، جو کہ مخرجہ فتاوی رضویہ کی جلد 24 میں موجودہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے ”حق العبد ہر وہ مطالبہ مالی ہے کہ شرعاً اس کے ذمہ کسی کے لئے ثابت ہو اور ہر وہ نقصان و آزار جو بے اجازت شرعیہ کسی قول فعل ترک سے کسی کے دین، آبرو، جسم، مال یا صرف قلب کو پہنچایا جائے۔ تو یہ دو قسمیں ہوئیں، اول کو دیون، ثانی کو مظالم، اور دونوں کو تبعات اور کبھی دیون بھی کہتے ہیں۔۔۔۔۔ پھر حق کسی قسم کاہوجب تک صاحبِ حق معاف نہ کرے معاف نہیں ہوتا۔۔۔۔ حقوق العباد میں بھی ملک دیان عزجلالہ نے اپنے دارالعدل کا یہی ضابطہ رکھاہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے معاف نہ ہوگا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 459، 460، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4356
تاریخ اجراء: 28 ربیع الآخر 1447ھ / 22 اکتوبر 2025ء