زکوٰۃ دے کر طعنہ دینا کیسا؟

زکوٰۃ دے کر طعنہ دینے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

بہن کو زکوۃ دے کر اسے طعنہ دینا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

کسی کو زکوۃ دے کر اسے زکوۃ کا طعنہ دینا جائز نہیں ہے کہ یہ اسے بلا وجہ شرعی تکلیف پہنچانا ہے اور کسی مسلمان کو بلاوجہ شرعی تکلیف پہنچانا، ناجائز ہے، نیزصدقہ دے کراحسان جتلانے اور تکلیف پہنچانےسے صدقے کا ثواب بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ لہذا جو بھی صدقہ کرے تو اسے چاہیے کہ دیتے وقت لینے والے کی عزت نفس کا ضرور خیال کرے اور دینے کے بعد احسان جتلانے، طعنہ دینے وغیرہ سےضرور اجتناب کرے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ- كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ- فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ- لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ- وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(264))

ترجمہ کنز الایمان : اے ایمان والو اپنے صدقے باطل نہ کردو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہ لائے، تو اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک چٹان کہ اس پر مٹی ہے اب اس پر زور کا پانی پڑا جس نے اسے نرا پتھر کر چھوڑا اپنی کمائی سے کسی چیز پر قابو نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔ (القرآن، پارہ 3، سورۃ البقرۃ، آیت: 264)

اس آیت کے تحت صراط الجنان میں ہے ”ارشاد فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! جس پرخرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے کا ثواب برباد نہ کردو کیونکہ جس طرح منافق آدمی لوگوں کو دکھانے کیلئے اور اپنی واہ واہ کروانے کیلئے مال خرچ کرتا ہے لیکن اس کا ثواب برباد ہوجاتا ہے اسی طرح فقیر پر احسان جتلانے والے اور اسے تکلیف دینے والے کا ثواب بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی پڑی ہوئی ہو، اگر اس پر زوردار بارش ہوجائے تو پتھر بالکل صاف ہوجاتا ہے اور اس پر مٹی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے اور روزِ قیامت وہ تمام عمل باطل ہوں گے کیونکہ وہ رضائے الٰہی کے لیے نہ تھے یا یوں کہہ لیں کہ منافق کا دل گویا پتھر کی چٹان ہے، اس کی عبادات خصوصاً صدقات اور ریا کی خیراتیں گویا وہ گردو غبار ہیں جو چٹان پر پڑ گئیں ، جن میں بیج کی کاشت نہیں ہو سکتی، رب تعالیٰ کا ان سب کو رد فرما دینا گویا وہ پانی ہے جو سب مٹی بہا کر لے گیا اور پتھر کو ویسا ہی کر گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صدقہ ظاہر کرنے سے فقیر کی بدنامی ہوتی ہو تو صدقہ چھپا کردینا چاہیے کہ کسی کو خبر نہ ہو۔ لہٰذا اگر کسی سفید پوش یا معزز آدمی یا عالم یا شیخ کو کچھ دیا جائے تو چھپا کر دینا چاہیے۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو علم دین سکھایا ہوتو اس کی جزا کی بھی بندے سے امید نہ رکھے اور نہ اسے طعنے دے کیونکہ یہ بھی علمی صدقہ ہے۔۔۔ فقیر پر احسان جتلانا اور اسے ایذا دینا ممنوع ہے اور یہ بھی ثواب کو باطل کردیتا ہے۔۔۔ اس آیت سے ہمیں یہ باتیں معلوم ہوئیں: (1) ریاکاری سے اعمال کاثواب باطل ہوجاتاہے۔۔۔ (2) فقیرپراحسان جتلانااوراسے ایذاء دیناممنوع ہے اوریہ بھی ثواب کوباطل کردیتاہے۔“ (صراط الجنان، جلد 1، صفحہ 457 تا 458، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

 فتاوی رضویہ میں ہے

ایذائے مسلم بے وجہ شرعی حرام قطعی۔ قال اللہ تعالیٰ:﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا)آنانکہ آزار دہند مردان مومن و زنان مومنہ را بے جرم پس بہ تحقیق کہ بہتان و گناہ آشکارابرخود برداشتند۔ سیدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماید: من اٰذی مسلما فقد اٰذانی ومن اٰذانی فقد اٰذی اللہ۔ ہر کہ مسلمان را آزار داد مرا اذیت رسانید و ہرکہ مرا اذیت رساند حق تعالیٰ را ایذا کرد، اے وہر کہ او سبحانہ را ایذا کرد پس سر انجام ست کہ بگیرد اورا

ترجمہ: مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا)

وہ لوگ جو ایماندار مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تکلیف دیتے ہیں، بے شک انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے ذمے لے لیا۔ سیدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نےاللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔" یعنی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائےگا۔ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 425، 426، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر: WAT-4251

تاریخ اجراء: 28ربیع الاول1447ھ/ 22ستمبر2025ء