
مجیب:فرحان احمد عطاری مدنی
مصدق:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0164
تاریخ اجراء:09 شعبان المعظم 1445ھ/20فروری 2024ء
مرکزالاقتصادالاسلامی
Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)
(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے دوست کا گارمنٹس کاچلتاہواکاروبارہے۔ کاروبارکووسعت دینے اور مزید سوٹ خریدنے کے لیے اسے رقم کی ضرورت ہے۔ میں اس میں حصہ ملانا چاہتا ہوں ۔ اس وقت اس کی دکان میں تقریباً دس لاکھ روپے کا مال ہے، اور میں بھی دس لاکھ روپے ملاناچاہتاہوں ، یوں ہم دونوں کی انویسٹمنٹ برابر ، برابر ہوگی لیکن چونکہ کام میرادوست ہی کرے گا، اس لیے اس کانفع 60 فیصد اور میرا نفع 40 فیصد ہوگا۔ یہ رہنمائی فرمادیں کہ ہم چلتے ہوئے مذکورہ کاروبار میں کس اندازمیں شرکت کریں کہ سرمایہ برابرہونے کے باوجود ہمارا نفع کم ،زیادہ لیناشرعاً درست ہوجائے۔ نیزاس صورت میں نقصان ہواتو کس کا کتنانقصان ہوگا؟ یہ بھی واضح کردیجئے ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جو طریقہ سوال میں درج ہے اس کے مطابق شرکت جائز نہیں البتہ تھوڑی سی تبدیلی کر لی جائے تو جائز صورت ممکن ہے۔
پوچھی گئی صورت میں دکان میں موجود مال کی مکمل جانچ کرتے ہوئے یہ طے کر لینا ضروری ہے کہ مال کتنے کا پڑا ہوا ہے؟ پھر انویسٹر یعنی آپ اس کا آدھا حصہ یعنی شیئر خرید لیں ۔ بالفرض وہ مال 10 لاکھ کا ہے تو آپ نے پانچ لاکھ روپے کےبدلے اپنے دوست کی دکان میں موجود مال کا شیئر خرید لیا، یوں ہرایک سوٹ دونوں کی ملکیت میں آگیا ، بدلے میں پانچ لاکھ روپے انہیں دے دیں ، اور سامان پر قبضہ کرلیں ۔پھرآپ او رآپ کے دوست دونوں پانچ، پانچ لاکھ روپےملاکر دس لاکھ روپےمیں عقدِشرکت کرلیں، اس طرح کہ مشترکہ کپڑوں کے ساتھ دس لاکھ روپے کی مشترکہ رقم سےگارمنٹس کی خرید و فروخت کا کام کریں گے،نفع میں60فیصدحصہ آپ کے دوست کا ہوگا، 40فیصد حصہ آپ کا ہوگا۔اس طریقے سے آپ دونوں کا نفع کم ،زیادہ مقرر کرنا شرعاً جائز ہوگا ۔
یادرہے کہ یہاں سامان میں شرکتِ ملک ضمنی ہے،عقدِشرکت اصل میں نقدی میں واقع ہوگی ، لہٰذا سامان میں ضمنی شرکت ملک قائم ہوجانے کے بعد نقدی میں شرکتِ عقدکرکے نفع کم یازیادہ مقررکرنے میں شرعاً کوئی خرابی نہیں ۔لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ چونکہ اس صورت میں آپ دونوں کی سامان میں ملکیت اور نقدی برابر،برابرہوگی لہٰذا اگر بالفرض نقصان ہواتو دونوں شریک نقصان میں برابرکے شریک ہوں گے ۔
مختصر القدوری میں ہے: ”وإذا أرادا الشركة بالعروض باع كل واحد منهما نصف ماله بنصف مال الآخر ثم عقدا الشركة“ یعنی اگر سامان میں شرکت کرنا چاہیں تو ان میں سے ہر ایک اپنے مال کا نصف، دوسرے شخص کے مال کے نصف کے عوض فروخت کرے پھر دونوں عقد شرکت کرلیں ۔ (مختصر القدوری،صفحہ 111، مطبوعہ :دار الکتب العلمیۃ)
ہدایہ شریف میں ہے : ”ھذہ شرکۃ ملک لما بیناان العرو ض لاتصح راس مال الشرکۃ ‘‘ یعنی یہ شرکت ملک ہوگی اس لیے کہ ہم پہلے بیان کرچکے کہ سامان کو شرکت کاراس المال بنانادرست نہیں ۔ (ھدایہ ،جلد 3، صفحہ9،مطبوعہ بیروت)
نہرالفائق میں ہے:”ان العروض لایصلح مال الشرکۃ نعم ذکرالاکمل عن شیخہ عبدا لعزیزالبخاری وشیخہ ھو الامام قوام الدین الکاکی وصرح الکاکی ھنابانہ اخذ عن صاحب (الھدایۃ ) ماحاصلہ ان ماذکرہ المصنف تبعا للقدوری من جواز الشرکۃ اختیارشیخ الاسلام وصاحب (الذخیرۃ )وشرح الطحاوی واختار شمس الائمۃ وصاحب (الھدایۃ ) انہ لایجوز عقدالشرکۃ اتفاقا وھواقرب الی الفقہ لبقاء جھالۃ راس المال والربح عند القسمۃ بخلاف مااذا باع نصف عرضہ بنصف دراھم صاحبہ ثم اشترکا لان الدراھم بھذاالعقد صارت نصفین بینھما فیکون ذلک راس مالھما ثم بینا حکم الشرکۃ فی العروض تبعا ‘‘یعنی عروض مال شرکت کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ علامہ اکمل نے اپنے(شیخ کے ) شیخ علامہ عبدالعزیزبخاری کے حوالے سے نقل کیا جبکہ علامہ اکمل کے شیخ امام قوام الدین کاکی ہیں،اور علامہ کاکی نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ علامہ عبدالعزیز بخاری نے صاحب ہدایہ کی بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا۔ اس بحث کا حاصل کلام یہ ہے کہ مصنف نے امام قدوری کی اتباع میں جوازشرکت کاقول ذکرکیا تو یہ شیخ الاسلام، صاحب ذخیرہ اور شرح الطحاوی کااختیارکردہ ہے جبکہ شمس الائمہ اورصاحب ہدایہ نے اس بات کو اختیارفرمایاکہ یہاں بالاتفاق عقدشرکت جائز نہیں، اوریہی قول اقرب الی الفقہ ہے ، اس لیے کہ( محض سامان میں شرکت ہوتو) راس المال اور نفع میں تقسیم کے وقت جہالت باقی رہے گی البتہ اگر نصف سامان کو نصف دراہم کے بدلے خریدلے پھر دونوں (رقم میں) شرکت کریں (تووہاں یہ حکم نہیں ہوگا) اس لیے کہ اس صورت میں دراہم دونوں کے درمیان مشترکہ ہوں گے اوریہی ان کا راس المال بنے گاپھر ہم عروض میں تبعاً شرکت کا حکم دیں گے ۔ (النھرالفائق،جلد3،صفحہ299،دارالکتب العلمیہ بیروت)
عنایہ شرح ہدایہ، معراج الدرایہ شرح ہدایہ میں ہے:”واللفظ للاول : واختارشمس الائمۃ السرخسی وصاحب الھدایۃ انہ لایجوز عقد الشرکۃ بالاتفاق وھواقرب الی الفقہ لبقاء جھالۃ راس المال والربح عند القسمۃ ۔۔۔بخلاف مااذا باع نصف عرضہ بنصف دراھم صاحبہ ثم اشترکا لان الدراھم بھذا العقد صارت نصفین بینھما فیکون ذلک راس مالھما ثم یثبت حکم الشرکۃ فی العروض تبعا وقد یدخل فی العقد تبعامالایجوز ایرادالعقد علیہ ‘‘یعنی شمس الائمہ سرخسی اور صاحبِ ہدایہ نے اس بات کو اختیارفرمایاکہ بالاتفاق یہاں عقدشرکت جائزنہیں، یہ قول اقرب الی الفقہ ہے ، اس لیے کہ تقسیم کے وقت نفع اور راس المال میں جہالت باقی رہے گی ۔ ہاں اگر نصف سامان کو نصف درہم کے بدلے فروخت کیا پھر شرکت کی تواس عقدمیں دراہم دونوں کے نصف ہوجائیں گے اوریہی دراہم ان کا راس المال بنے گاپھر عروض میں شرکت کاحکم تبعاً ہوگااور کبھی عقدمیں تبعاًوہ چیز داخل ہوجاتی ہے جس پر اصالۃ ًعقدکرنا، جائزنہیں ہوتا۔(عنايه شرح هدايه،جلد6،صفحہ175،دارالکتب العلمیہ بیروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’ولو كان بينهما تفاوت بان تكون قيمة عرض احدهما مائة وقيمة عرض صاحبه اربعمائة يبيع صاحب الاقل اربعة اخماس عرضه بخمس عرض الآ خر فصار المتاع كله اخماسا كذا فى الكافى، وكذلك اذا كان لاحدهما دراهم وللآخر ينبغی ان يبيع صاحب العروض نصف عروضه بنصف دراهم صاحبه ويتقابضان ثم يشتركان ‘‘ یعنی : اگر دونوں کے اموال میں تفاوت ہو اس طور پر کہ ایک کے سامان کی قیمت سو ہے اور دوسرے کے سامان کی قیمت چار سو ہے تو کم سامان والا اپنے چار خمس دوسرے کے خمس کے بدلے بیچ دےتو اب کل مال کے پانچ حصے بن جائیں گےجیساکہ کافی میں ہے۔ یونہی جب ان دونوں میں سے ایک کے پاس درہم ہوں اور دوسرے کے پاس سامان ہوتو سامان والااپنے آدھے سامان کو اپنے شریک کے نصف دراھم کے بدلے فروخت کردے گااوردونوں بدلین پر قبضہ کریں گے پھر شرکت کریں گے ۔(فتاوى عالمگيرى،ج02،ص307، مطبوعه بيروت)
صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”نفع میں کم وبیش کے ساتھ بھی شرکت ہوسکتی ہے مثلاً ایک کی ایک تہائی اوردوسرے کی دوتہائیاں اورنقصان جوکچھ ہوگا وہ راس المال کے حساب سے ہوگا،اس کے خلاف شرط کرناباطل ہے ۔ “(بہار شریعت ، جلد2، صفحہ491 مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم