Maal e Tijarat Ki Qeemat Kam Ho Gayi Tu Zakat Kis Qeemat Se Ada Ki Jaye ?

 

مال تجارت کی قیمت کم ہو گئی تو زکوۃ کس قیمت سے ادا کی جائے ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0167

تاریخ اجراء:18 شعبانُ المُعظّم 1445 ھ/29فروری  2024   ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے  ایک نجی سوسائٹی  کے قریب تقریباً 1 کروڑ روپے کا پلاٹ بیچنے کی غرض سے لیا تھا اور اب بھی وہ اپنی اسی نیت پر قائم ہے، لیکن اب سال کے اِختتام پر اس پلاٹ کی  قیمت کم ہو کر تقریباً 50 لاکھ روپے رہ گئی ہے ، یہ ارشاد فرمائیں کہ اس پلاٹ کی زکوۃ کس حساب سے نکالی جائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیچنے کی نیت سے خریدی جانے والی چیز کو مالِ تجارت کہتے ہیں، اور شرعی مسئلہ یہ ہے کہ سال گزرنے پر مالِ تجارت کی مارکیٹ میں جو قیمت ہوگی اسی  کا اعتبار کرتے ہوئے زکوۃ ادا کی جائے گی۔ پوچھی گئی صورت میں اگر واقعی مذکورہ پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو سال کے اختتام پر 1 کروڑ سے کم ہو کر 50 لاکھ روپے ہوچکی ہے تو اسی مالیت پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہو گا۔

   جیساکہ فتاوی ہندیہ میں ہے:”تعتبر القیمۃ عند حولان الحول“یعنی:سال کے اختتام پر مال کی جو قیمت ہے اس قیمت کا اعتبار ہو گا۔(فتاوی ھندیہ ، جلد 1 ، صفحہ 179 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت،امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”تجارت کی نہ لاگت پر زکوٰۃ ہے نہ صرف منافع پر، بلکہ سال تمام کے وقت جو زر منافع ہے اور باقی مالِ تجارت کی جو قیمت اس وقت بازار کے بھاؤسے ہے،  اُس پر زکوٰۃ ہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ 158،مطبوعہ رضا فاؤندیشن،لاہور)

   خلیفہ اعلی حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”مالِ تجارت میں سال گزرنے پر جوقیمت ہوگی اس کا اعتبار ہے۔“(بہار شریعت،جلد1،صفحہ907، مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم