
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0166
تاریخ اجراء:13شعبان المعظم 1445ھ/24فروری 2024ء
مرکزالاقتصادالاسلامی
Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)
(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے ، میرے والد صاحب کا پہلے پینٹ سلائی کرنے کا کام تھا، آخری عمر میں والد صاحب نے یہ کام چھوڑ دیا تھا ، ان کی ملکیت میں پینٹ سلائی کرنے والی دو مشینیں تھیں ، جب والد صاحب نے یہ کام چھوڑا، تو وہ مشینیں انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے ایک دوست کو فری میں استعمال کرنے کے لئے دے دی تھیں ، وہ ان کو اپنے کار خانے میں لے گئے تھے ، ان کو مالک نہیں بنایا تھا، صرف استعمال کے لئے دی تھیں ، اب جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا ہے، تو میں وہ مشینیں والد صاحب کے اسی دوست کو بیچنا چاہتا ہوں ، جن کے پاس وہ مشینیں ہیں ، وہ بھی خریدنے کے لئے تیار ہیں ۔
میرا سوال یہ ہے کیا میرے لئے ضروری ہے کہ میں پہلے ان مشینوں پر قبضہ کروں اور پھر والد صاحب کے دوست کو بیچوں یا قبضہ سے پہلے بھی ان کو بیچ سکتا ہوں ؟
واضح رہے میں والد صاحب کا تنہا وارث ہوں ، عاقل بالغ ہوں ، والدہ کا انتقال والد صاحب سے پہلے ہی ہوگیا ہے ، بہنیں تھیں ہی نہیں ۔سائل:علی حسن(کورنگی ڈھائی)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جب بندہ وراثت کے ذریعہ کسی منقولی یا غیر منقولی چیز کا مالک بنے تو اس چیز میں قبضہ کرنے سے پہلے تصرف کرنا بھی جائز ہوتا ہے ، لہٰذا آپ کے لئے بالکل جائز ہوگا کہ آپ ان مشینوں پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی وہ مشینیں والد صاحب کے دوست کو فروخت کر دیں ۔
البتہ جب آپ ان کو یہ مشینیں بیچ دیں گے تو ان کا پہلے کا جو قبضہ ہے ، وہ خریداری کے قبضہ کے قائم مقام نہیں ہوگا کیونکہ ان کا قبضہ، قبضہ امانت ہے اور خریداری کا قبضہ، قبضہ ضمان ہوتا ہے ، قبضہ امانت قبضہ ضمان کے قائم مقام نہیں ہوسکتا ، خریداری کے بعد ان کونیا قبضہ کرنا ہوگا۔
اس جدید قبضہ کی صورت یہ ہوگی کہ جس جگہ بیٹھ کر آپ ایجاب و قبول کریں، خرید و فروخت کی ڈیل مکمل کریں ، مشینیں اسی جگہ موجود ہوں، مشینیں خریدنے والا ان کو پکڑنے پر قادر ہو تو ایسی صورت میں یہ موجودگی اور مال حاصل کرنے کی قدرت ، جدید قبضہ کہلائے گی اور اگر مشینیں وہاں موجود نہیں تو پھر خریدار کو خریداری کے بعد اتنی مہلت ملے کہ وہ مشینوں کے پاس جاکر قبضہ کر سکے ۔
وراثت کے ذریعہ ملکیت میں آنے والی چیز پر قبضہ سے پہلے تصرف کرنا ، جائز ہے ۔
ہندیہ میں ہے : ”ولو ملک المنقول بالوصیۃ او المیراث یجوز بیعہ قبل القبض“ یعنی اگر کسی منقولی چیز کا وصیت یا میراث کے ذریعہ مالک ہوا ہے تو اس کو قبضہ سے پہلے بیچنا جائز ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد03، صفحہ 13،دار الفکر، بیروت )
حاشیۃ الطحطاوی علی الدر اور ردالمحتار میں نقل ہے : ”قال الکمال واما المیراث فالتصرف فیہ جائز قبل القبض لان الوارث یخلف المورث فی الملک وکان للمیت ذلک التصرف فکذا للوارث وکذا الموصی لہ لان الوصیۃ اخت المیراث اھ ومثلہ للاتقانی وھذا اکالصریح فی جواز تصرف الوارث فی الموروث وان کان عینا “یعنی امام کمال رحمہ اللہ نے فرمایا وراثت میں ملی چیز میں قبضے سے پہلے تصرف کرنا ، جائز ہے کیونکہ وارث ملکیت میں مورث کا خلیفہ ہوتا ہے اور میت کو اس مال میں تصرف کا اختیار تھا تو وارث کو بھی ہوگا اور یہی حکم ہے اس کا بھی جس کے لئے وصیت کی گئی کیونکہ وصیت احکام میں میراث کی مثل ہے اھ اور ایسا ہی امام اتقانی کی کتاب میں ہے ، یہ عبارت اس معاملہ میں صریح کی طرح ہے کہ وارث مال وراثت میں قبضے سے پہلے تصرف کر سکتا ہے اگرچہ مال ِوراثت کوئی متعین چیز ہو۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر، جلد7 ، صفحہ 376، دار الکتب العلمیۃ بیروت)( ردالمحتار، جلد7، صفحہ394، کوئٹہ)
محیط برہانی میں ہے : ”ولو ملك المنقول بالوصية أو بالميراث يجوز بيعه قبل القبض، أما في الميراث فلأن يد الورثة يد المورث لأنهم خلفا عنه فكان هذا بيع المقبوض، وأما الوصية فلانها أخت الميراث فكان حكمها حكم الميراث“ یعنی اگر کسی منقولی چیز کا وصیت یا میراث کے ذریعہ مالک ہوا تو اس کی بیع قبضے سے پہلے بھی جائز ہے ۔ میراث میں بیع جائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وارث کا قبضہ درحقیقت مورث کے قبضہ سے ہے کیونکہ وارث اس کا خلیفہ اور نائب ہے لہٰذا یہ مقبوض کی ہی بیع ہے اور وصیت میں قبضہ لازم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وصیت احکام میں میراث کی مثل ہے ، لہٰذا اس کا حکم بھی میراث والا ہوگا ۔ (محیط برھانی، جلد6، صفحہ 277، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
خریدار کے پاس پہلے سے ہی چیز قبضہ امانت کے طور پر موجود ہو تو خریداری کے بعد جدید قبضہ کی حاجت ہوگی ۔
ہندیہ میں ہے: ” ولو كان في يده عارية أو وديعة أو رهن لم يصر قابضا بمجرد العقد إلا أن يكون بحضرته أو يرجع إليه فيتمكن من القبض“ یعنی اگر چیز مشتری کے ہاتھ میں عاریت یا امانت یا رہن کے طور پر تھی تو صرف عقد کے ذریعے وہ قبضہ کرنے والا نہیں کہلائے گا سوائے یہ کہ اس وقت مبیع بھی مشتری کے پاس موجود ہو یا وہ مبیع کے پاس جائے اور قبضہ پر قدرت حاصل کرلے (توقبضہ ہوجائے گا)۔(الفتاوی الھندیۃ، جلد3، صفحہ 23، بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے: ’’مبیع پر مشتری کا قبضہ عقدِبیع سے پہلے ہی ہوچکا ہے ، اگر وہ قبضہ ایسا ہے کہ تلف ہونے کی صورت میں تاوان دینا پڑتا ہے تو بیع کے بعد جدید قبضہ کی ضرورت نہیں مثلاً وہ چیز مشتری نے غصب کر رکھی ہے یا بیع فاسد کے ذریعہ خرید کر قبضہ کر لیا اب اسے عقد صحیح کے ساتھ خریدا تو وہی پہلا قبضہ کافی ہے کہ عقد کے بعد ابھی گھر پہنچا بھی نہ تھا کہ وہ شے ہلاک ہوگئی تو مشتری کی ہلاک ہوئی اور اگر قبضہ ایسا نہ ہو جس سے ضمان لازم آئے مثلاً مشتری کے پاس وہ چیز امانت کے طور پر تھی تو جدید قبضہ کی ضرورت ہے، یہی حکم سب جگہ ہے ، دونوں قبضے ایک قسم کے ہوں یعنی دونوں قبضۂ ضمان یا قبضۂ امانت ہوں تو ایک دوسرے کے قائم مقام ہوگا اور اگر مختلف ہوں تو قبضۂ ضمان ، قبضۂ امانت کے قائم مقام ہوگا مگر قبضۂ امانت ، قبضۂ ضمان کے قائم مقام نہ ہوگا۔ “(بھارشریعت ،جلد2، صفحہ 645، مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم