
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے دو پارٹیوں کے درمیان فلیٹ کاسودا کروا دیااور اپنی بروکری بھی وصول کرلی اب خریدار کودوسری جگہ فلیٹ زیادہ سمجھ آرہا ہے جس کی وجہ سے وہ اس فلیٹ کاسودا کینسل کرنا چاہتا ہےاور بیچنے والا بھی راضی ہے کیونکہ اس کے پاس بھی زیادہ پیسوں میں خریدنے کے لیے پارٹی موجود ہے، کیااس صورت میں مجھے بروکری واپس کرنی ہوگی؟سائل:طلحہ(ناظم آباد،کراچی)
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ریئل اسٹیٹ کی فیلڈ میں بروکر دو طرح سے سودے کرواتے ہیں ۔ ایک تو وہ بروکرکہ جن کا کام فقط محنت و مشقت کرتے ہوئےدو پارٹیوں کے درمیان سودامکمل کروانا ہوتاہےاور آگے کے معاملات مثلاً پیسے کا لین دین اور کاغذات نام پر ٹرانسفرکروانااور دیگر معاملات پارٹیاں خود طے کرتی ہیں۔
دوسرے وہ بروکرکہ جو سودا کروانے سے لیکر پیمنٹ کا لین دین ،کاغذات نام پر ٹرانسفر کروانااوراس حوالے سے جملہ معاملات کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔
پوچھی گئی صورت میں اگرآپ کا کام فقط دونوں پارٹیوں کے درمیان سودامکمل کروانا تھا، آگے کے معاملات مثلاً پیسے کا لین دین اور کاغذات نام پر ٹرانسفرکرواناوغیرہ آپ کی ذمہ داری نہیں تھی تو سودامکمل کرواکر جو بروکری آپ نے وصول کرلی وہ فریقین کے سودا کینسل کرنے کی صورت میں واپس نہیں لی جائے گی کیونکہ بروکری دونوں پارٹیوں کے درمیان سودا مکمل کروانے کی اجرت تھی جوکہ آپ سودا مکمل کرواکر وصول کرچکے، اب اگرفریقین باہمی رضا مندی سے سودا کینسل کرتے ہیں تو بروکر سے بروکری واپس لینے کاحق نہیں ہے۔
ہاں! اگر آپ کا کام سودا کروانے کے ساتھ پیمنٹ کا لین دین ،کاغذات نام پر ٹرانسفر کروانا وغیرہ بھی تھا تو ایسی صورت میں آپ نے کچھ کام کیا اور کچھ کام سودا کینسل ہونے کی وجہ سے نہیں کرسکےلہذا جتنا کام آپ نے کیا ہے، اتنے کام کی آپ کی مارکیٹ میں جو اجرت بنتی ہے اس کے آپ حقدار ہیں، باقی پیسے واپس کرنا آپ پر لازم ہے۔
کام پوراکرنےاور پھرسودا فسخ ہونے کی صورت میں وصول کی گئی بروکری کے حکم سے متعلق فتاوی قاضی خان میں ہے:”دلال باع شيئاً وأخذ الدلالية ثم اسحق المبيع على المشتري أو رد بعيب بقضاء أو غيره لا يسترد الدلالية وإن انفسخ البيع لأنه وإن انفسخ لا يظهر أن البيع لم يكن فلا يبطل عمله۔“ یعنی:بروکرنے کوئی چیز بیچی اور بروکری وصول کر لی پھر کسی نے بیچی گئی چیزکے مالک ہونے کا دعوی کر دیا یا قاضی کے فیصلے کے ساتھ یا بغیر فیصلے کے عیب کی وجہ سے واپس کردی گئی تو بروکر سے بروکری واپس نہیں لی جائے گی اگرچہ بیع فسخ ہوگئی کیونکہ بیع فسخ ہوجانے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ بیع ہوئی ہی نہیں ہے کہ بروکر کا عمل باطل ہوجائے ۔(فتاوی قاضی خان برھامش ھندیہ،جلد02،صفحہ293،مطبوعہ کوئٹہ)
بروکر کا کام پورا کرنےاور بروکری وصول کرلینے کے بعد سودا کینسل کرنے اور دیگر صورتوں کا حکم بیان کرتے ہوئے درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:” لو ظهر مستحق بعد أخذ الدلال أجرته وضبط المبيع أو رد بعيب لا تسترد أجرة الدلال ۔۔۔لو ظهر مستحق للمبيع بعد أن باعه الدلال وأخذ دلالته وضبطه المستحق بحكم الحاكم أو بغير حكم أو رد بعيب أو إقالة أو فسخ أو بسبب آخر من الأسباب لا تسترد أجرة الدلال لأن الدلالة أجرة عمل الدلال ومتى تم العمل وأخذت الأجرة , فلا تسترد حتى أنه لو لم تكن قد أعطيت الأجرة للدلال لزم إعطاؤها له۔“یعنی:بروکر کے بروکری وصول کرلینے کے بعد مبیع میں کوئی مستحق ظاہر ہوگیااور اس نے مبیع کو لے لیا یا مبیع کو عیب کی وجہ سے لوٹا دیا گیا تو بروکر سے بروکری واپس نہیں لی جائے گی۔۔۔اگربروکر کے مبیع بیچنے اور بروکری وصول کرلینے کے بعد مبیع کا کوئی مستحق ظاہر ہوگیااور اس نے مبیع کو حاکم کے حکم سے یا حکم کے بغیر ہی لے لیایا عیب،اقالہ ،فسخ یا کسی دوسرے سبب سے بیچی گئی چیز کو لوٹادیا گیا تو بروکرسے بروکری واپس نہیں لی جائے گی کیونکہ بروکری بروکر کے کام کی اجرت ہےاور جب وہ کام مکمل کرچکااور بروکری وصول کرچکا تو بروکری واپس نہیں لی جائے گی یہاں تک اگر بروکر کو بروکری نہیں دی گئی تھی تو اب اسے بروکر ی دینا لازم ہے۔(درر الحکام شرح مجلۃ الحکام،جلد01،صفحہ 565،مطبوعہ بیروت)
اسی طرح العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں سوال کیا گیا :”في دلال سعى بين البائع والمشتري وباع البائع المبيع بنفسه والعرف أن الدلالة على البائع ثم إن المشتري رد المبيع على البائع قام البائع يطالب الدلال بالدلالة التي دفعها له فهل ليس له ذلك؟(الجواب) : نعم ذكر في الصغرى دلال باع ثوبا وأخذ الدلالة ثم استحق المبيع أو رد بعيب بقضاء أو غيره لا تسترد الدلالة وإن انفسخ البيع؛ لأنه لم يظهر أن البيع لم يكن فلا يبطل عمله ۔“ یعنی:بروکر نے بائع اور مشتری کے درمیان سودا کروانے کی کوشش کی اور مبیع بائع نے خود بیچی اور عرف اس بات کا ہے کہ بروکری بائع پر ہوگی پھر مشتری نے مبیع، بائع کو واپس کر دی توبائع اس بروکری کا مطالبہ کرنے لگ گیا جو اس نے بروکر کو دی تھی ۔ کیا بائع کو اس بات کا حق نہیں ہے؟جواب دیا گیا :صغری میں اس بات کو ذکر کیا گیا کہ بروکر نے کپڑا بیچا اور بروکری لے لی پھر مبیع میں کسی کا حق نکل آیا یا مبیع کو عیب کے سبب قضائے قاضی کے ساتھ یا بغیر قضائے قاضی کے لوٹا دیا تو بروکری واپس نہیں لی جائے گی اگرچہ بیع فسخ ہوچکی ہےکیونکہ اس سے یہ ظاہر نہیں ہوا کہ بیع ہوئی ہی نہیں تھی جس کے نتیجے میں تو بروکر کا عمل بھی باطل نہیں ہوگا۔ ( العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ ،جلد01،صفحہ247،مطبوعہ دار المعرفۃ)
بروکر اجیر مشترک ہوتاہے اور اجیر مشترک جتنا کام کرلےاتنے کام کی وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہےچنانچہ البحر الرائق میں ہے:”يجب الأجر بالبعض لكونه مسلما إلى المستأجر۔“یعنی:بعض کام کرنےکی بھی اجرت واجب ہوگی ،کیونکہ اجیر نے بعض کام ، کام کروانے والے کو سپرد کر دیا ہے ۔(البحر الرائق ،جلد07،صفحہ 301،مطبوعہ بیروت)
اسی طرح صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں:” مزدور دیوار بنارہا ہے، کچھ بنانے کے بعد گرگئی توجتنی بنا چکا ہے، اس کی اجرت واجب ہوگئی۔(بہار شریعت،جلد03،صفحہ115،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0192
تاریخ اجراء: 28رمضان المبارک1445ھ/08اپریل 2024ء