اے آئی سے بنی تصویر والے کپڑے بیچنا کیسا؟

اے آئی کے ذریعے جاندار کی بنی تصویر کپڑے پر ہو تو اسے بیچنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ میرا کپڑے کا کاروبار ہے، بعض اوقات ٹی شرٹ پر لڑکی کی تصویر ہوتی ہے، لیکن اے آئی سے بنی ہوئی ہوتی ہے اور پتا نہیں ہوتا کہ یہ لڑکی اصل میں ہوگی بھی یا نہیں، ایسی تصویر والے کپڑے کو بیچنا اور اس کا استعمال جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جاندار کی تصویرچاہے کسی طرح بھی بنائی جائے،اگر وہ حقیقت میں پائے جانے والے جانداروں کے مشابہ اوراس کی عکاسی کرتی ہے، تو شرعی طور پروہ حرام تصویر کے حکم میں داخل ہوگی۔ مثلا اگرانسان کی تصویر ہے، اور اس میں موجود فرد کا چہرہ، سر اور دیگر اعضاء (اگر موجود ہوں تو ان) کی ساخت و ہیئت حقیقت میں موجود انسانوں کے مشابہ ہے، تویہ تصویر بھی ناجائز و حرام قرارپائے گی۔ خواہ خاص اس شکل و صورت کا فرد واقع میں موجود نہ ہو کہ حرمت کا دار ومدارتصویر میں موجود جاندار کے حقیقت میں موجود جانداروں کی طرح ہونے پر ہے نہ کہ خاص اس فرد کے واقع میں موجودہو نے پر، یہی وجہ ہے کہ ایسے کارٹون جن کے کردار محض فرضی ہوتے ہیں اور حقیقت میں ان کا وجود نہیں ہوتا، لیکن وہ حقیقی جانداروں جیسے دکھتے ہیں (جیسے بین ٹین اورباربی کارٹون جو ہُو بہو انسانوں جیسے دکھائی دیتے ہیں)، اگر ان کی بھی تصاویر بنائی جائیں یا ڈیجیٹل ہونے کی صورت میں کسی چیز مثلا صفحے یا کپڑے وغیرہ پر چھاپ دی جائیں، تو ان پر بھی حرام تصویر والے احکام لاگو ہوتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے بنائی جانے والی تصاویر عام طور پر حقیقی انداز کی ہی ہوتی ہیں۔ ہاں مکمل ایڈیٹنگ کی سہولت موجود ہونے کی وجہ سے بسااوقات کسی ایسے انسان کی تصویر بھی بنائی جاسکتی ہے کہ جس شکل کا فرد حقیقت میں موجود نہ ہو، اسی طرح بعض اوقات انسان کی کارٹون نما تصویر بھی بنائی جاتی ہے، تاہم ان سب کے باوجود بھی یہ تصاویر عام طور حقیقت میں موجود انسانوں کی ہی عکاسی کررہی ہوتی ہیں کہ دیکھنے والوں میں سے کوئی نہیں کہتا کہ یہ انسان کی تصویر نہیں ہے، لہذا شرعی نقطہ نظر سے اگر ایسی تصاویر کو کسی چیز، جیسے کپڑے یا کاغذ وغیرہ پر چھاپ دیا جائے، تو یہ بھی ناجائز و حرام تصویر کے حکم کےداخل ہوجائیں گی۔ اور خاص کسی چیز پر پرنٹ کرنے کے لئے ایسی تصویر کا بنانا، بنوانا، چھاپنا اور چھپوانا سب ہی ناجائز و حرام ہوگا، اور جس کپڑے پر ایسی تصویرچہرے کے ساتھ موجود ہو اور وہ اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے ہو کر دیکھیں، تو اعضاء کی تفصیل واضح نظر آئے، تو ایسا لباس پہننا، پہنانا، خریدنا اور بیچنا، سب ناجائز ہوگا اور اسے پہن کر نماز بھی مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی، کہ پڑھنی گناہ اور پڑھ لی، تو اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ یہ تو فی نفسہ حکم ہےپھر اگر تصویر میں مزید کوئی ناجائز عنصر شامل ہو جیسے کہ لڑکی کی تصویر ہو اور اس میں بے ستری اور بے حیائی کا عنصر بھی موجود ہو، تو اب اس کے بنانے، بنوانے، بیچنے، خریدنے اور پہننے کی شناعت مزید بڑھ جائے گی کہ یہ خواہی ناخواہی بے حیائی کو فروغ دینے اور اس کا حصہ بننے کے متراف ہےاور بے حیائی کو فروغ دینے کے متعلق قرآن مجید میں درد ناک عذاب کی وعید آئی ہے۔

ذی روح کی تصویر کی حرمت کے حوالے سےمنحۃ السلوک میں ہے :

(و تكره صورة ذي الروح) مثل صورة الأسد و الفيل و الآدمي و الخيل و الطير التي ينقشها المصورون في الجدران و السقوف، و ينسجها النساج في البسط و الفرش. قيده بقوله: (ذي روح) لأن صورة غير ذي روح: لا يكره، كالشجر و نحوه، لأنه لا يعبد

یعنی:ذی روح کی تصاویر مکروہ ہے،مثلا شیر، ہاتھی، آدمی، گھوڑے اور پرندے کہ جن کی تصاویر مصورین دیواروں اور چھتوں پربنایا کرتے ہیں،اور کپڑے بننے والے جنہیں قالین اور بچھونوں میں بُنتے ہیں۔ذی روح کی قید اس وجہ سے لگائی کیونکہ غیر ذی روح مثلا درخت وغیرہ کی تصویر مکروہ نہیں،کیونکہ اس کی عبادت نہیں کی جاتی۔ (منحۃ السلوک شرح تحفۃ الملوک، ص 159، وزارة الأوقاف و الشؤون الإسلامية، قطر)

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ”حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ذی روح کی تصویر بنانا، بنوانا، اعزازاً اپنے پاس رکھنا سب حرام فرمایا ہے اوراس پر سخت سخت وعیدیں ارشاد کیں اور ان کے دور کرنے،  مٹانے کاحکم دیا؛ احادیث اس بارے میں حدِ تواترپر ہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج 21، ص 426، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ذی روح کی تصویر سے مراد کیا ہے، اس کے حوالے سےفتاویٰ رضویہ میں ہے: ”تصویر کسی طرح استیعاب مابہ الحیاۃ نہیں ہو سکتی فقط فرق حکایت و فہم ناظر کا ہے اگر اس کی حکایت محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے یعنی ناظر یہ سمجھے کہ گویا ذو التصویر زندہ کو دیکھ رہا ہے تو وہ تصویر ذی روح کی ہے اور اگر حکایت حیات نہ کرے ناظر اس کے ملاحظہ سے جانے کہ یہ حی کی صورت نہیں میت و بے روح کی ہے تو وہ تصویر غیر ذی روح کی ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج 24، ص 587، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ایسے کارٹون جو کہ ذی روح کی حکایت کرتے ہوں وہ بھی حرمت کے تحت داخل ہے، چنانچہ مفتیانِ اہل سنت کی مستند کتاب ’’جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے‘‘ میں ہے: ”تصویر ذی روح وہ ہے جو جنس حیوان کی حکایت ومشابہت پر مشتمل ہو اس طرح کہ سرا ور چہرہ کسی حیوان کا ہو۔

وہ کارٹون جو جنسِ حیوان کی مشابہت پر مشتمل ہو وہ تصویر ذی روح ہے، جو ایسا نہ ہو وہ ذی روح کی تصویر نہیں۔ ذی روح کی تصویر بنانے کا جو حکم ہے وہی حکم ذی روح کا کارٹون بنانے کا بھی ہے۔ غیر ذی روح کی صورت گری حرام نہیں، اسی طرح غیر ذی روح کا کارٹون بھی حرام نہیں، کیوں کہ اس سے بھی حکایتِ حیات نہیں ہوتی۔“ (جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے، ج 03، ص 151،  مبارکپور اشرفیہ)

جس کپڑے پر جاندار کی تصویر ہو، اس کے خریدنے بیچنے وغیرہ کے متعلق سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کا چہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے سے دیکھیں تو اعضاء کی تفصیل ظاہر ہو ، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پر ہو اس کا پہننا، پہنانا یا بیچنا، خیرات کرنا سب ناجائز ہے اور اسے پہن کر نماز مکروہِ تحریمی ہے جس کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج 24، ص 567، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

بے حیائی پھیلانے والوں کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ- فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ- وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾

ترجمہ:وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے، ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (پارہ 18، سورۃ النور، آیت 19)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0641

تاریخ اجراء: 09ربیع الاول 1447ھ/ 24 ستمبر 2025ء