
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میرا کپڑے کا کام ہے، میرے اس کام میں ایک صورت یہ پیش آتی ہے کہ مثلا ً زید کو کسی نے کہا کہ تم میرے لئے فلاں کپڑا 500 کلو خرید لو اور زید کو اس نے اس کے مطابق رقم دے دی، اب زید بجائے اس کے کہ وہ کسی دوسرے سے وہ کپڑا خریدے یا دوسرے شہر جاکر خریداری کرے، وہ یہ کرتا ہے کہ جو اس کے پاس اسی مال کا اسٹاک رکھا ہوتا ہے یعنی وہی کپڑا اس کے پاس رکھا ہوتا ہے جو مطلوبہ وزن کے مطابق ہوتا ہے، تو وه اپنا ہی مال مؤکل کو بتائے بغیر اسےبیچ دیتا ہے۔ مؤکل یہ ہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس نے کسی سے خریدا ہے۔ کیا یہ صورت جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صورت مسئولہ میں زید کا طریقہ کار شرعاً جائز نہیں۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ اس صورت میں زید کو اُس مال کی خریداری کا وکیل بنایا گیا ہے اور شرعی اعتبار سے خریداری کا وکیل اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات سے خریداری نہ کرے یعنی وہ مؤکل کو اپنا ہی مال نہ بیچے اگرچہ وہ مال مؤکل کی مطلوبہ کوالٹی اور مقدار کے مطابق ہو، کیونکہ اپنا ہی مال بیچنے کی صورت میں ایک ہی شخص کا بیک وقت بائع و مشتری ہونا لازم آتا ہے،یعنی اس وقت چونکہ وہ اپنا مال بیچ رہا ہے، اس لئے وہ بائع ہے اور مؤکل کی طرف سے وکیل بن کر خرید بھی رہا ہے، لہٰذا مشتری ہے، جبکہ شرعی اعتبار سے یہ درست نہیں۔
اس کی جائز صورت یہ ہے کہ زید اپنے مؤکل کو بتادے کہ اسی طرح کا مال اس کے پاس پڑا ہوا ہے، اگر آپ خریدنا چاہیں تو خرید لیں، ایسی صورت میں اگر مؤکل اپنی رضامندی سے خود اس مال کو زید سے خرید لیتا ہے، تو یہ معاملہ بالکل درست ہوجائے گا کیونکہ اب یہ عقد جدید ہوگا،جس کا وکالت سے کوئی تعلق نہیں۔
ملک العلماء علامہ کاسانی علیہ الرحمۃ بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:
الوكيل بالشراء لا يملك الشراء من نفسه؛ لأن الحقوق في باب الشراء ترجع إلى الوكيل، فيؤدي إلى الإحالة: وهو أن يكون الشخص الواحد في زمان واحد مسلما و متسلما مطالِبا ومطالَبا؛ ولأنه متهم في الشراء من نفسه.ولو أمره الموكل بذلك لا يصح، لما ذكرنا
ترجمہ: خریداری کا وکیل خود اپنے آپ سے خریدنے کا اختیار نہیں رکھتا، کیونکہ خریداری کے باب میں حقوق وکیل کی طرف لوٹتے ہیں، تو اس طرح یہ احالہ کا باعث ہوگا اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں اس شے کو سپرد کرنے والا بھی ہو اور اس تسلیم کو قبول کرنے والا بھی، مطالبہ کرنے والا بھی ہو اور جواب دہ بھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خود اپنی ذات سے خریداری کرنے میں اس پر تہمت لگے گی اور اگر مؤکل نے خود اس خریداری کا حکم دیا تب بھی یہ صحیح نہیں اسی وجہ سے جس کو ہم نے ذکر کردیا۔ (بدائع الصنائع، ج 06، ص 31 دار الكتب العلمية)
اسی طرح شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
(لو باع الوكيل بالشراء ماله لموكله لا يصح) يعني لو اشترى الوكيل بالشراء مال نفسه لموكله لا يصح شراؤه، و لو قال: له: اشتر مال نفسك لي؛ لأن الشخص الواحد ليس له أن يتولى طرفي العقد
ترجمہ: (اگر خریداری کے وکیل نے اپنا مال اپنے موکل کو بیچا تو یہ بیع درست نہیں) یعنی اگر خریداری کے وکیل نے اپنا خود کا مال اپنے موکل کیلئے خریدا تو یہ خریداری جائز نہیں اگرچہ موکل نے اس کو اجازت دیتے ہوئے کہا ہو کہ میرے لئے اپنا مال خرید لو، ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص عقد کے دونوں طرف کا عاقد نہیں ہو سکتا۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، المادۃ 1488، ج 03، ص 599، دار الجيل)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-577
تاریخ اجراء: 28 ذو القعدۃ 1446ھ / 26 مئی 2025ء