بیچی ہوئی چیز قیمت لینے سے پہلے دوبارہ خریدنا

بیچی ہوئی چیز کی مکمل قیمت وصول کرنے سے پہلے بیچنے والا شخص خرید سکتا ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میرا کپڑے کا کام ہے، اس میں خرید و فروخت کی ایک صورت اس طرح ہوتی ہے کہ مثلاً میں نے بکر کو دس لاکھ کا ایک ہزار کلو مال بیچا اور ادائیگی کیلئے 3 مہینے کی مدت مقرر ہوگئی، اب وہ مال لے کر چلاجاتا ہے اور وہ اس میں سے تھوڑا تھوڑا کرکے آگے مال بیچتا رہتا ہے اور مجھے رقم کی ادائیگی کرتا رہتا ہے، لیکن ادائیگی مکمل نہیں ہوئی ہوتی اور ادائیگی کی مدت بھی باقی ہوتی ہے، اسی دوران میرے پاس کوئی گاہک ایسا ہی مال لینے آتا ہے جس میں مجھے کافی اچھا پرافٹ ملنے کی امید ہوتی ہے تو میں اسی دوست سے باقی ماندہ مال پہلے والے ریٹ سے کم میں خریدلیتا ہوں اور اس گاہک کو بیچ دیتا ہوں اور اس کے بعد اپنے دوست سے جتنے میں خریدا تھا اتنی رقم اس دوست کو ادا کرتا ہوں۔ كيا یہ صورت شرعی اعتبار سے جائز ہے؟ اس صورت میں کم ریٹ میں بیچنے پر دوست پر کوئی جبر نہیں ہوتا، وہ اپنے مرضی سے دیتا ہے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ اپنے دوست سے جو خریداری کرتے ہیں، وہ شرعاً جائز نہیں ہے۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب کوئی چیز کسی کو بیچ دی جائے، تو جب تک مشتری(خریدار) اس کی مکمل قیمت ادا نہ کردےاور اس قیمت پر بائع(بیچنے والے) کا قبضہ نہ ہوجائے، اس وقت تک اسی چیز کو مشتری یا اس کے وکیل سے اس قیمت سے کم میں خریدنا جائز نہیں ہے اور صورت مسئولہ میں بھی چونکہ اس باقی ماندہ مال کو پہلے والی قیمت سے کم میں خریدا جارہا ہے، لہٰذا یہ جائز نہیں۔

اپنا بیچا ہوا مال ثمن کی ادائیگی سے پہلے اسی مشتری یا اس کے وکیل سے کم قیمت میں خریدنا جائز نہیں، برابر یا زائد قیمت میں جائز ہے، چنانچہ ہدایہ اور اس کی شرح بنایہ میں ہے:

( و من اشترى جارية بألف درهم حالة أو نسيئة، فقبضها ثم باعها من البائع بخمسمائة قبل أن ينقد الثمن لا يجوز البيع الثاني) و اعلم أن شراء ما باع بأقل مما باع قبل نقد الثمن لا يجوز عندنا. (و قال الشافعي: يجوز) ش: و بعد نقد الثمن يجوز عندنا أيضا و بالمثل أو الأكثر يجوز بالإجماع سواء كان قبل نقد الثمن أو بعده

ترجمہ: اورجس نے کسی کنیز کو ہزار درہم کے بدلے نقد یا ادھار خریدا اور اس پر قبضہ کرلیا پھر اس کو بائع کے ہاتھ ثمن کی ادائیگی سے قبل ہی پانچ سو درہم میں بیچ دیا تو دوسری بیع جائز نہیں اور جان لو کہ جس چیز کو بیچ دیا ہو اس کو بیچی ہوئی قیمت سے کم میں ثمن کی ادائیگی سے قبل خریدنا ہمارے نزدیک جائز نہیں اور امام شافعی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ جائز ہے اور ثمن کی ادائیگی کے بعد تو ہمارے نزدیک بھی جائز ہے اور اسی طرح پہلی قیمت کے برابر یا اس سے زائد میں خریدنا بالاجماع جائز ہے چاہے ثمن اول ادا كرنے سے پہلے ہو یا اس کے بعد۔ (الھدایۃ مع البنایۃ، ج 08،ص 172، دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان)

بہار شریعت میں ہے: ”جس چیز کو بیع کر دیا ہے اور ابھی ثمن وصول نہیں ہوا ہے، اس کو مشتری سے کم دام میں خریدنا، جائز نہیں اگرچہ اس وقت اس کا نرخ کم ہو گیا ہو۔ خود مشتری سے اسی دام میں یا زائد میں خریدی یا ثمن پر قبضہ کرنے کے بعد خریدی، یہ سب صورتیں جائز ہیں۔“ (بہار شریعت، ج 02، ص 708، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

کم قیمت میں خریدنے کے ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں بائع کیلئے بلا عوض نفع کا حصول ہے اور یہ سود ہی کی ایک صورت ہے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:

إذا باع رجل شيئا نقدا أو نسيئة، و قبضه المشتري و لم ينقد ثمنه - أنه لا يجوز لبائعه أن يشتريه من مشتريه بأقل من ثمنه الذي باعه منه عندنا ۔۔لأن في هذا البيع شبهة الربا؛ لأن الثمن الثاني يصير قصاصا بالثمن الأول، فبقي من الثمن الأول زيادة لا يقابلها عوض في عقد المعاوضة، و هو تفسير الربا، إلا أن الزيادة ثبتت بمجموع العقدين فكان الثابت بأحدهما شبهة الربا، و الشبهة في هذا الباب ملحقة بالحقيقة

ترجمہ: جب کسی شخص نے کوئی چیز نقد یا ادھار بیچی اور مشتری نے اس پر قبضہ کرلیا اور ابھی ثمن ادا نہیں کیا تو اس کے بائع کیلئے ہمارے نزدیک جائز نہیں کہ وہ اس شے کو اسی مشتری سے اس قیمت سے کم میں خریدے جس میں اس کو بیچا تھا، کیونکہ اس بیع میں سود کا شبہ ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ دوسرا ثمن پہلے ثمن کے بدلے ہوجائے گا اور پہلے ثمن میں سے کچھ زیادتی باقی رہ جائے گی جس کے مقابل عقد معاوضہ میں کوئی عوض نہ ہوگا اور یہی سود کی تفسیر ہے مگر یہ کہ یہ زیادتی دو عقدوں کے مجموعہ سے ثابت ہورہی ہے تو ان میں سے کسی ایک میں سود کا شبہ ثابت ہوجائے گا اور اس باب میں شبہ حقیقت کے ساتھ ملحق ہے۔ (بدائع الصنائع، ج 05، ص 198، دار الكتب العلمية)

اسی طرح درمختار و رد المحتار میں ہے:

(و فسد شراء ما باع بنفسه أو بوكيله من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه بالأقل من قدر الثمن الأول قبل نقد كل الثمن الأول. صورته: باع شيئا بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا) علة لقوله لم يجز: أي لأن الثمن لم يدخل في ضمان البائع قبل قبضه، فإذا عاد إليه عين ماله بالصفة التي خرج عن ملكه وصار بعض الثمن قصاصا ببعض بقي له عليه فضلا بلا عوض فكان ذلك ربح ما لم يضمن وهو حرام بالنص زيلعي

ترجمہ: اور جو چیز بندے نے خود بیچی یا اس کے وکیل نے بیچی ہو، تو ثمنِ اول مکمل ادا کرنے سے پہلے اس میں کمی کر کے اُسی خریدار سے خریدنا بیع فاسد ہے اگرچہ وہ خریدار حکمی طور پر ہو، جیسا کہ خریدار کے وارث سے خریدنا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص نے دس روپے کی کوئی چیز بیچی اور ثمن پر ابھی قبضہ نہیں کیا، پھر اُسی شخص سے پانچ روپے کی خرید لی، تو ایسا کرنا، سود کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اگرچہ مارکیٹ میں حقیقتا ہی اس کی قیمت کم ہوگئی ہو،للربا شارح کے قول لم یجز کی علت ہے یعنی اس لئے کہ بائع کے قبضے سے پہلے ثمن اس کے ضمان میں نہیں آیا، تو جب اس کا عینِ مال اسی صفت کے ساتھ، جس کے ساتھ اس کی ملک سے نکلا تھا، اُس کے پاس لوٹ آیا اور بعض ثمن بعض کا بدلہ ہو گئے، تو مشتری پر اس کے لیے بلا عوض زیادتی باقی رہ جائے گی، تو یہ زیادتی اُس چیز کا نفع ہے، جو اِس شخص کے ضمان میں داخل ہی نہیں ہے اور یہ نص کی وجہ سے حرام ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ج 05، ص 73، دار الفكر- بيروت)

اگر مشتری نے کچھ ثمن کی ادائیگی کر بھی دی ہو، تب بھی کم قیمت میں واپس خریدنا ناجائز ہوگا، کیونکہ مکمل ثمن اول کی ادائیگی ضروری ہے، چنانچہ امام ابن مازہ حنفی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

يجب أن يعلم أن شراء ما باع الرجل بنفسه أو بيع له بأن باع و كيله بأقل مما باع ممن باع أو ممن قام مقام البائع كالوارث قبل نقد الثمن لا يجوز و كذلك إن بقي عليه شيء من ثمنه و إن قل

ترجمہ:یہ جاننا ضروری ہے کہ جس چیز کو بندے نے خود بیچا یا اس کے وکیل نے اس کی طرف سے بیچا تو جس کو بیچا اس سے یا بائع کے قائم مقام جیسے اس کے وارث سے، اس شے کو بیچی ہوئی قیمت سے کم میں ثمن کی ادائیگی سے قبل خریدنا جائز نہیں اور اسی طرح حکم ہے اس وقت جب مشتری پر کچھ ثمن باقی ہو اگرچہ وہ کم ہی ہو۔ (المحیط البرھانی، ج 06، ص 385، دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0575

تاریخ اجراء: 24 ذو القعدۃ 1446ھ / 22 مئی 2025ء