
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0533
تاریخ اجراء:06 رمضان المبارک 1446 ھ/07 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میرا گاڑیوں کا کاروبار ہے، خود اپنی انویسٹ سے بھی گاڑیاں خریدتا بیچتا ہوں اور لوگوں کی گاڑیاں بھی بکواتا ہوں۔ حال ہی میں ایک میرے کزن نے مجھے اپنی گاڑی بیچنے کو کہا اور کہا کہ 22 لاکھ روپے میں بیچنی ہے، اس سے کم میں نہیں بیچنا، میں نے وہ گاڑی 25 لاکھ رو پے میں بیچ دی، اب میرا کزن کہہ رہا ہے کہ میں تمہیں صرف تمہارا کمیشن دوں گا، باقی مجھے مکمل 25 لاکھ روپے دو! حالانکہ ان کی ڈیمانڈ صرف 22 لاکھ روپے کی تھی۔
مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا ان کو اصل رقم یعنی 22 لاکھ دینا ہوگی یا کل رقم 25 لاکھ؟ اس اضافی تین لاکھ پر کس کا حق ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ کل رقم یعنی 25 لاکھ روپے اپنے کزن کو سپرد کریں، ڈیمانڈ سے زائد رقم یعنی تین لاکھ روپے اپنے پاس رکھ لینا ناجائز ہے، کیونکہ آپ ایک بروکر ہیں اور بروکر کی حیثیت ایک نمائندے کی ہوتی ہے، نہ ہی اس کا مال ہوتا ہے اور نہ ہی رقم، لہٰذا اس زائد رقم پر آپ کا کوئی حق نہیں، ہاں! عرف کے مطابق جو آپ کا کمیشن بنتا ہے، اس کے آپ مستحق ہیں، لہٰذا وہ آپ کو ملے گا۔
مرشد الحیران و مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے، و اللفظ للآخر: ”لو أعطى أحد ماله لدلال، و قال بعه بكذا دراهم فإن باعه الدلال بأزيد من ذلك فالفضل أيضا لصاحب المال، و ليس للدلال سوى الأجرۃ“ ترجمہ: اگر کسی نے اپنا مال بروکر کو دیا اور کہا کہ اس کو اتنے درہم کے بدلے بیچ دو تو اگر بروکر نے اس کو اس رقم سے زیادہ میں بیچا تو اضافہ بھی اصل مالک کیلئے ہوگا اور بروکر کو اس کی اجرت کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔(مرشد الحیران، ج 01، ص 85، المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق) (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، المادة 578، ج 01، ص 604، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے: ”لو أعطى أحد مالا للدلال، و قال بعه اليوم بكذا قرشا فإن باعه الدلال بأزيد من ذلك فالفضل أيضا لصاحب المال؛ لأن هذا الفضل بدل مال ذلك الشخص، فكما أن ذلك المبدل كان ماله فالبدل يلزم أن يكون كذلك، و ليس للدلال سوى أجرة الدلالة۔۔۔ و حكم هذا الدلال كالأجير المشترك“ ترجمہ: اگر کسی نے بروکر کو مال دیا اور کہا آج کے دن میں اس کو اتنے قرش کے بدلے بیچ دو، اگر بروکر نے اس سے زیادہ میں بیچ دیا تو اضافی رقم بھی مال کے مالک کی ہے کیونکہ یہ اضافہ اس شخص کے مال کا بدل ہے، تو جیسے مبدل اس کا مال تھا ، بدل بھی اسی کا مال ہوگا اور بروکر کو صرف اس کی بروکری کی اجرت ملے گی۔۔۔ اور اس دلال کا حکم اجیر مشترک کی طرح ہے۔ (درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام، ج 01، ص 604، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
فتاوی رضویہ میں دلال کی اجرت کے متعلق ہے :”اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت وکوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہ کی، اگر چہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلاً آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے خرید لینی چاہئے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اُجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے محنت کرنے کی ہوتی ہے نہ بیٹھے بیٹھے، دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے مشورہ دینے کی۔۔۔ اور اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا اگر چہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو، اور اگر قرارداد اجر مثل سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی ہوچکا۔۔۔ حموی میں ہے: علی قیاس ھذا السماسرۃ و الدلالین الواجب اجر المثل یعنی: اسی قیاس پر دلال حضرات کا معاملہ ہے کہ ان کو مثلی اجرت دی جائے گی۔“ (فتاوی رضویہ، ملتقطا، ج 19، ص، 452 تا 545، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم