کھلے پیسے نہ ہونے کا بہانہ کرنے کا حکم

دکاندار کا جھوٹ بول کر کہ ’’میرے پاس کُھلے پیسے نہیں ہیں‘‘ چیز بیچنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں فروٹ بیچتا ہوں، اس جگہ پہ اور کئی افراد بھی فروٹ کا کام کرتے ہیں، جب کوئی گاہگ خریداری کے لیے آتا ہے اور فروٹ خرید کر اس کی قیمت سے بڑا نوٹ دیتا ہے، تو بیچنے والا یوں کہتا ہے کہ میرے پاس کھلے پیسے نہیں، اتنے کا مزید فروٹ خرید لیجئے، حالانکہ اس کے پاس کھلے پیسے ہوتے بھی ہیں اور بعد میں وہ اس چیز کا اظہار بھی کرتا ہے کہ میں نےآج اس انداز سے فروٹ بیچا ہے، حالانکہ میرے پاس کھلے پیسے بھی تھے۔ مارکیٹ میں یہ رواج کافی بڑھتا جارہا ہے اور کچھ لوگ باقاعدہ الگ سے اس طرح کے نوٹ رکھتے ہیں اور گاہگ کے سامنے وہی نکالتے ہیں، تاکہ اسے اطمینان ہو جائے کہ واقعی اس کے پاس کھلے پیسے نہیں، حالانکہ اس کے پاس کھلے پیسے موجود ہوتے ہیں۔ دکانداروں کا اس طرح کرنا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اسی طرح کی حرکتوں کی وجہ سے حدیث میں تاجروں کو فاسق و فاجر قرار دیا گیا ہے، ورنہ تجارت بہت عمدہ اور بابرکت چیز ہے، حتی کہ اللہ پاک نے رزق کے دس حصوں میں سے نو حصے اسی میں رکھے ہیں۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس عظیم نعمت کی قدر کرتے ہوئے خرید و فروخت کے تمام معاملات شریعت کے مطابق سرانجام دیں، اس میں ایسا کوئی بھی کام نہ کریں، جو شریعت کے خلاف ہو کہ اس کی وجہ سے ایک تو (بعض صورتوں میں) گناہ ہوگا اوردوسرا تجارت سے برکت بھی اٹھالی جائے گی۔

اور جہاں تک پوچھی گئی صورت کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ ’’کھلے پیسے ہونے کے باوجود دکاندار کا گاہک کے سامنے بڑے نوٹ نکالنا اور اسے یوں کہنا کہ میرے پاس کھلے پیسے نہیں‘‘ تو یہ سخت ناجائز، حرام اور گناہ ہے، کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکہ ہے اور یہ دونوں کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ نیز دکاندار کا ان گناہوں کا ارتکاب کرنے کے بعد انہیں دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا بھی جائز نہیں، کیونکہ بلا ضرورتِ شرعی گناہ کا اظہار بھی گناہ ہوتا ہے۔ مزید یہ بھی یاد رہے کہ جو شخص کوئی بُرا کام شروع کرتا ہے، اس کا گناہ تو اسے ملتا ہی ہے، لیکن بعد میں جتنے بھی افراد اس کا ارتکاب کرتے ہیں، ان سب کا گناہ بھی شروع کرنے والے کو ملتا ہے اور ان کے اپنے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم نےارشاد فرمایا:

تسعة اعشار الرزق فی التجارۃ

ترجمہ: رزق کے دس حصوں میں سے نو حصے تجارت میں ہیں۔ (کنز العمال، جلد 4، صفحہ 30، مؤسسۃ الرسالہ)

خرید و فروخت میں خلافِ شرع چیزوں کا ارتکاب کرنے سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، او قال: حتى يتفرقا، فان صدقا و بينا بورك لهما في بيعهما، و ان كتما وكذبا محقت بركة بيعهما

ترجمہ: خرید و فروخت کرنے والوں کو خیار حاصل ہے، جب تک دونوں جدا نہ ہوجائیں یا فرمایا: یہاں تک کہ وہ جدا نہ ہوجائیں۔ پس اگر دونوں سچ بولیں اور (بیچی جانے والی چیز کے)عیب کو بیان کردیں، تو دونوں کے لیے خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جائے گی اور اگر عیب کو چھپائیں اور جھوٹ بولیں، توان کی خرید و فروخت سے برکت مٹادی جائے گی۔ (صحیح البخاری، کتاب البیوع، جلد 1، صفحہ 283، مطبوعہ کراچی)

اور جھوٹ کے بارے میں ارشاد فرمایا:

ایاکم و الکذب ،فان الکذب یھدی الی الفجور، و ان الفجور یھدی الی النار۔۔ الخ

جھوٹ سے بچو، بیشک جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 339، مطبوعہ لاھور)

اور تاجروں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

التجار یحشرون یوم القیامۃ فجارا، الا من اتقی اللہ و بر و صدق

ترجمہ: بروزِ قیامت تاجر گنہگاراٹھائے جائیں گے، مگر وہ جو اللہ سے ڈرے، بھلائی کرے اورسچ بولے۔ (سنن دارمی، جلد 3، صفحہ 1692، مطبوعہ عرب شریف)

اوردھوکے کے بارے میں ارشاد فرمایا :

من غش فليس مني

ترجمہ: جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں۔ (یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)۔ (الصحیح لمسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 70، مطبوعہ کراچی)

بلاوجہ شرعی گناہ کا اظہار بھی گناہ ہے۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’کل امتی معافی الا المجاھرین و ان من المجاھرۃ ان یعمل الرجل باللیل عملا ثم یصبح و قد سترہ اللہ علیہ فیقول یا فلان عملت البارحۃ کذا و کذا و قد بات یسترہ ربہ و یصبح یکشف سترہ اللہ عنہ‘‘

ترجمہ: میری تمام امت سے درگزر فرمایاجائے گا، سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے اور یہ بھی اعلانیہ گناہ ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی گناہ کرے، پھر صبح اس حال میں کرے کہ اللہ پاک نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھا اور وہ کہے: اے فلاں! میں نے رات کو ایسے ایسے گناہ کیا تھا، حالانکہ رات گزر گئی کہ اللہ پاک نے اس کے گناہ کو چھپایا ہوا تھا اور یہ صبح اسی چیز کو ظاہر کرنے لگا جسے اللہ پاک نے چھپایا ہواتھا۔ (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب سترالمؤمن علی نفسہ، جلد 2، صفحہ 896، مطبوعہ کراچی)

بُراکام شروع کرنے کے بعد جتنے بھی لوگ اس کا ارتکاب کریں گے، ان سب کا گناہ بھی شروع کرنے والے کو ملے گا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا و من دعا الی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا‘‘

ترجمہ: جو کسی کو سیدھے راستے کی طرف بلائے، تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے، اُن سب کے برابر اس (بلانے والے) کو بھی ثواب ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی اور جو برائی کی طرف بلائے، تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے، ان سب کے برابر اس کو بھی گناہ ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ (الصحیح لمسلم، کتاب العلم، جلد 2، صفحہ 341، مطبوعہ کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: Pin-6699

تاریخ اجراء: 03 شعبان المعظم 1442ھ 18 مارچ 2021 ء