ڈسکاؤنٹ کارڈ خریدنے کا حکم

 

ڈسکاؤنٹ کارڈ خریدنے کا حکم

مجیب: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: GRW-1430

تاریخ اجراء: 26 ربیع الاول 1446ھ/01 اکتوبر2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض فاسٹ فوڈ کمپنی والے اپنا ڈسکاؤنٹ کارڈ  بیچتے ہیں۔جو وہ  کارڈ خریدتا ہے ،اسے خریداری میں ڈسکاؤنٹ ملے گا۔ کیا اس صورت میں وہ ڈسکاؤنٹ کارڈ خریدنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں کمپنی سے ڈسکاؤنٹ کارڈ خریدنا شرعاً جائز نہیں ۔اگر لے لیا، تو  لازم ہے کہ انہیں کارڈ واپس کر کے اپنی رقم واپس لے اور اس گناہ سے توبہ کرے ۔اس کے ناجائز ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ  :

   اولاً:مذکورہ ڈسکاؤنٹ کارڈخریدنا شرعاًبیع نہیں کہ بیع میں مال کا مال سے تبادلہ ہونا ضروری ہے اور یہ کارڈ  شرعاً مال نہیں کہ کمپنی کا اس پر مخصوص چھپائی کردینے سے یہ کارڈ کسی اور کام کا نہیں رہتا  ، اس لیے اس کی خریدو فروخت ناجائز و  باطل ہے ۔

   ثانیاً:اگر اسے مال تسلیم کر بھی لیا جائے، تو بھی یہاں کارڈ خریدنا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ مقصود ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کارڈ اس کےلیے صرف دستاویز کا کام کرتا ہے۔ لہذا ڈسکاؤنٹ حاصل کرنے  کےلیے جو رقم مشتری نے دی وہ رشوت کہلائے گی کہ اپنا  کام نکالنے کے لیے بلاعقد شرعی کسی کو کچھ دینا  رشوت ہے جوکہ ناجائز و حرام ہے۔

   قرآن پاک میں ہے:

﴿وَلَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوۡابِہَاۤ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنْ اَمْوالِ النَّاسِ بِالۡاِثْمِ وَاَنۡتُمْ تَعْلَمُوۡن

   ترجمہ کنزالایمان :’’ اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لیے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو  جان بوجھ کر۔‘‘(سورۃ البقرۃ ،پارہ02،آیت188)

   اس آیت مبارکہ کے تحت حضرت علامہ مولانامفتی محمدنعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں:’’اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا ،خواہ لوٹ کر یا چھین کر چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔‘‘

   ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ

’’«لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الراشي والمرتشي»: هذا حديث حسن صحيح‘‘

   ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے پر اور لینے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(سنن ترمذی،جلد3،صفحہ615،مطبوعہ شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي ، مصر)

   اپنا کام بنانے کے لیے بلا عقدشرعی کسی کو کچھ دینا  رشوت ہے، چنانچہ سیدی امام اہلسنت  امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’رشوت لینا مطلقاً حرام ہے کسی حالت میں جائز نہیں،  جو پرایا حق دبانے کے لیے  دیا جائے رشوت ہے  ،یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ597،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   ڈسکاؤنٹ کارڈ مال نہیں،جیساکہ امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہۃسے سوال ہوا:’’زید نے نوآنے قیمت کے ایک ٹکٹ ۹/ آنے سے لے کر سرکار میں  داخل کیا بعد ازاں  سرکار نے اسی زید سے سوا روپیہ لے کر اس کو چارٹکٹ اور دے دئے، بعد اس کے زید نے وہی چار ٹکٹ وہی سواروپیہ بیچ کر پھر سرکار میں  داخل کیا، بعد روپیہ داخل کرنے کے سرکار نے اسی روپیہ کے دو فی قیمت کا ایک کپڑا زید کو دے دیا ،اب یہ معاملہ مطابق شرح شریعت کے جائز ہے یانہیں ؟‘‘

   آپ نے ارشاد فرمایا:” یہ صورت شرعا باطل وناجائز ہے کہ وہ ٹکٹ جو اس کے ہاتھ بیچا جاتاہے اور یہ دوسروں  کے ہاتھ بیچتا ہے اصلا مال نہیں  تو رکن بیع کہ مبادلۃ المال بالمال ہے ،اس میں  متحقق نہیں  اس کی حالت مٹی سے بھی بدتر ہے مٹی پھر بھی کام آتی ہے، اوریہ کسی مصرف کا نہیں  سوائے اس کے کہ احمق پہلے اپنا گلا پھانسے، پھر اس کے چھڑانے کو اپنے سے چاراحمق اور تلاش کرے اور ان میں  ہر ایک کو چار چار ڈھونڈنا پڑیں  اوریہ سلسلہ بڑھتا رہے یا بعض احمقوں  کے خسارہ پر ختم ہوجائے، ہاں  وہ کپڑا کہ اسے ملا وہ معاوضہ نہیں  ہوتا، بلکہ بطور انعام دیا جاتاہے، تو وہ فی نفسہٖ اس کے لئے جائز اور اس سے نماز درست ہے۔ “(فتاوی رضویہ، ج 17،ص167،رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم