دولہا کو پہنائے جانے والا ہار بیچنے کا حکم

دولہا کو پہنائے جانے والے ہار بیچنا

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

میری پھولوں کے ہاروں کی دکان ہے، لوگ میرے پاس آتے ہیں اور پھولوں کا ہار خرید کر اپنے متعلقہ دولہا یا دلہن یا ان کے گھر والوں کے گلے میں ڈالتے ہیں، ہوتا یہ ہے کہ جب یہ لوگ ہار خرید کر لے جا کر دولہا یا دلہن وغیرہ کو دے دیتے ہیں تو وہ لوگ دوبارہ ہار ہم کو بیچنے آتے ہیں، تو ہم وہی ہار دوبارہ ان سے مناسب قیمت پر باہمی رضامندی سے خرید لیتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں وہی ہار دوبارہ خریدنا جائز ہے، وجہ یہ ہے کہ جب آپ نے ہار بیچ کر گاہک کو قبضہ دے دیا تو وہ اس کا مالک ہوگیا اور مالک کو اپنی ملک میں مکمل جائز تصرف کا اختیار ہوتا ہے تو اس گاہک نے دولہا یا دلہن وغیرہ کو ہار پہنا دیا اور ہمارے یہاں اس سے  تملیک(مالک بنانا) ہی مقصود ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دولہا یا دلہن کو ہار پہنانے کے بعد وہ ا س ہار کا کیا کرتے ہیں، اس سے کوئی تعرض(سروکار) نہیں کرتا، لہٰذا جب وہ دولہا یا دلہن اس کے مالک ہیں تو ان کو بھی اپنی ملک میں مکمل جائز تصرف کا اختیار حاصل ہے،  تو وہ اس ہار کو کسی كو بھی بیچ سکتے ہیں، لہٰذا ٓپ بھی اس کو خرید سکتے ہیں۔

اپنے مملوکہ اموال میں ہر طرح کا جائز تصرف جائز ہونے کے متعلق امام فخرالدين زیلعی حنفی علیہ الرحمہ تبیین الحقائق میں لکھتے ہیں:

”ثم اعلم أن للإنسان أن يتصرف في ملكه ما شاء من التصرفات ما لم يضر بغيره ضررا ظاهرا“

ترجمہ: پھر جان لو کہ انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی ملک میں جو چاہے تصرف کرے  جب تک کہ اس کا تصرف دوسرے کو واضح نقصان نہ پہنچائے۔(تبیین الحقائق، جلد4، صفحہ196، دارالکتاب الاسلامی)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے

”كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير“

 ترجمہ: ہر ایک کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی مستقل ملک میں جیسے چاہے تصرف کرے یعنی وہ اپنے اختیار سے جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے یعنی کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کو تصرف سے روکے، یہ سب اس وقت ہے جبکہ اس میں دوسرے کاواضح نقصان نہ ہو۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، جلد3، صفحہ201، دار الجيل)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4258

تاریخ اجراء: 01ربیع الثانی1447 ھ/25ستمبر 2520 ء