
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا ایک بڑے سپر اسٹور میں الیکٹرک شیونگ مشین کا اسٹال ہے، جہاں پر مختلف کمپنیز کے مختلف ماڈلز کی الیکٹرک شیونگ مشینز فروخت کرتا ہوں، کسی نے مجھے بتایا ہے کہ یہ کاروبار ناجائز ہے؟ کیا واقعی یہ کام ناجائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
الیکٹرک شیونگ مشین جسم کے بال صاف کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے، اگرچہ اس کا زیادہ تر استعمال داڑھی مونڈنے کے لئے ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ معصیت والے(ناجائز)کام میں استعمال کے لئے متعین نہیں ہے، بلکہ بہت سے لوگ اور حجام(Barber)سر، رخسار، گلے، بغل، سینہ اوردیگر اعضاء کے بال صاف کرنے کے لئے بھی الیکٹرک شیونگ مشین کا استعمال کرتے ہیں، لہذاشیونگ مشین کی خریدوفروخت کے بارے میں تفصیلی حکم یہ ہے کہ اگربائع (بیچنے والے)کومعلوم ہے کہ خریدارداڑھی مونڈنے کے لئے خرید رہا ہے، تو اسے بیچنا جائز نہیں، کیونکہ داڑھی ایک مشت رکھنا واجب اور ایک مشت سے کم کرنا یا سرے سے ہی مونڈدینا، ناجائز وگناہ ہے اور ایسے مونڈنے والے شخص کو فروخت کرنا گناہ پر مدد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح گناہ کرنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح گناہ کے کام پر مدد کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور اگر بیچنے والے کو معلوم ہے کہ خریدار داڑھی مونڈنے کے لئے نہیں، بلکہ کسی اورکام میں استعمال کرنے کے لئے خرید رہا ہے یا معلوم ہی نہیں کہ کس نیت سے خرید رہا ہے، تو اسے بیچنا جائز ہے، البتہ بہتر یہی ہے کہ اسے بیچنے سے احتراز کیا جائے۔
اس کی نظیر فقہائے اسلام کابیان کردہ "ہتھیاراورافیون بیچنے والا" مسئلہ ہےکہ فتنہ و فساد کرنے والوں کو ہتھیار اور افیونی کو افیون فروخت کرنا، جائز نہیں، کیونکہ یہ گناہ پر مددہے، افیونی اور فتنہ پرور لوگوں کے علاوہ کو فروخت کرنا، جائزہے۔
داڑھی بڑھانے کاحکم دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
”خالفوا لمشرکین وفروا اللحی و احفوا الشوارب“
ترجمہ:مشرکوں کا خلاف کرو، داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھیں خوب پست کرو ۔ (صحیح بخاری ، کتاب اللباس، ج 2، ص 875، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ، کراچی)
ایک مشت سے کم داڑھی کرنے کے ناجائز ہونے کے بارے میں دررالحکام، عقودالدریہ، فتح القدیر، درمختار اور ردالمحتار میں ہے،
واللفظ للاول:”واماالاخذ من اللحیۃ وھی دون القبضۃ کمایفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ احد“
ترجمہ:ایک مشت سے کم داڑھی کاٹنا، جیسا کہ بعض اہل مغرب اور مخنث مرد کرتے ہیں، اسے کسی ایک نے بھی جائز نہیں قرار دیا۔(دررالحکام شرح غررالاحکام، ج01، ص208، مطبوعہ احیاء الکتب العربیہ)
شیخ الاسلام امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں: ”ریش(یعنی داڑھی)ایک مشت یعنی چار انگل تک رکھنا واجب ہے، اس سے کمی ناجائز۔ “ (فتاوی رضویہ، ج22، ص581، مطبوعہ رضا فاؤ نڈیشن، لاھور)
اور ناجائز کام پر مددکرنے کی ممانعت کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ)
ترجمۂ کنز الایمان:اور گناہ اورزیادتی پر باہم مدد نہ دو۔ (القرآن، سورۃالمائدہ، آیت 2)
مذکورہ بالاآیت کے تحت امام ابوبکر احمد جصاص رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
’’(وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ) نھی عن معاونۃ غیرنا علی معاصی اللہ تعالی‘‘
ترجمہ: آیت کریمہ(وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ)میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کاموں میں دوسرے کی مدد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (احکام القرآن، ج2، ص429، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ، کراچی)
شیخ القرآن مفتی محمد قاسم قادری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں: ”یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے۔۔۔گناہ اورظلم میں کسی کی بھی مددنہ کرنے کاحکم ہے۔کسی کاحق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کرفیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلاوجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کااس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنایہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائزہے۔“ (تفسیرصراط الجنان، ج02، ص424، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
ناجائز کام پر مدد کرنے والی چیزیں بنانے اور فروخت کرنے کے ناجائز ہونے کے بارے میں علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:
’’فاذا ثبت کراھۃ لبسھا للتختم ثبت کراھۃ بیعھا و صیغھا لما فیہ من الاعانۃ علی ما لا یجوز، و کل ما أدی الی ما لا یجوز، لا یجوز‘‘
ترجمہ: جب ان (مرد کے لئے سونے) کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت ثابت ہوگئی، تو اس کے بیچنے اور بنانے کی کراہت بھی ثابت ہوگئی، کیونکہ اس میں ناجائز کام پر مدد کرنا ہے اور ہر وہ کام جو ناجائز کام کی طرف لے جائے، وہ بھی ناجائز ہوتا ہے۔)درمختار، کتاب الحظر و الاباحت، فصل فی اللبس، ج09، ص595، مطبوعہ، کوئٹہ(
خریدار ناجائز کام کے علاوہ کسی اور کام میں استعمال کے لئے خریدتا ہے تو اس کے جواز کے بارے میں جد الممتار میں ہے:
’’بیع الافيون و البنج و امثالھما ایضا مکروہ الا فمن علم انہ لا یشتریھا للمعصیۃ‘‘
ترجمہ: افیون، بھنگ اور ایسی دیگر اشیاء کی بیع مکروہ ہے مگر وہ شخص کہ معلوم ہو کہ یہ معصیت کے لیے نہیں خریدتا (تو اسے بیچنا جائز ہے)۔
)جد الممتار علی رد المحتار، ج7، ص78، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ(
خریدار کی نیت معلوم نہ ہونے کی بنا پر بھی بیچنے کے جواز کے بارے میں جد الممتار میں ہے:
’’ان الشئی اذا صلح فی حد ذاتہ لان یستعمل فی معصیۃ و فی غیرھا و لم یتعین للمعصیۃ فلم یکن اعانۃ علیھا لاحتِمال ان یستعمل فی غیر المعصیۃ و انما یتعین بقصد القاصدین و الشک لا یؤثر‘‘
ترجمہ: بیشک جب کوئی شئے فی نفسہ معصیت اور غیرِ معصیت میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو اور گناہ کے لیے متعین نہ ہو تو اسے بیچنا معصیت پر مدد نہیں ہے کیونکہ احتمال ہے کہ وہ غیرِ معصیت میں استعمال ہو، تعین تو ارادہ کرنے والوں کے ارادے سے ہوتا ہے اور شک کی کوئی تاثیر نہیں۔)جد الممتار علی رد المحتار، ج7، ص75,76، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ(
اہلِ فتنہ کو ہتھیار بیچنے کے متعلق ہدایہ میں ہے:
”(و یکرہ بیع السلاح فی ایام الفتنۃ) معناہ ممن یعرف انہ من اھل الفتنۃ لانہ تسبب الی المعصیۃ و ان کان لا یعرف انہ من اھل الفتنۃ لا باس بذلک لانہ یحتمل ان لا یستعملہ فی الفتنۃ فلا یکرہ بالشک“
ترجمہ: فتنہ و فساد کے ایام میں ہتھیار فروخت کرنا مکروہ ہے، اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جو بیچنے والا جانتا ہو کہ خریدار فتنہ و فساد مچانے والے ہیں تو مکروہ ہے، کیونکہ انہیں بیچنا گناہ کا سبب بننا ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ خریدار فتنہ و فساد کرنے والے ہیں تو انہیں فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ احتمال ہے کہ وہ فتنہ و فساد میں استعمال نہ کریں، پس شک کی بنا پر بیچنا مکروہ نہیں ہوگا۔)ہدایہ مع فتح القدیر، ج10، ص70، مطبوعہ کوئٹہ(
افیون کے متعلق فتاویٰ رضویہ میں ہے:
”افیون نشہ کی حد تک کھانا حرام ہے اور اسے بیرونی علاج، مثلاً ضماد و طلا میں استعمال کرنا یا خوردنی معجونوں میں اتنا قلیل حصہ داخل کرنا کہ روز کی قدر شربت نشے کی حد تک نہ پہنچے، تو جائز ہے اور جب وہ (افیون) معصیت کے لئے متعین نہیں تو اس کے بیچنے میں حرج نہیں مگر اس کے ہاتھ جس کی نسبت معلوم ہو کہ نشہ کی غرض سے کھانے یا پینے کو لیتا ہے۔۔۔ اور جب اس کی تجارت مطلقاً حرام نہ ہوئی، بلکہ جائز صورتوں پر بھی مشتمل ہوئی کہ یہاں تعین معصیت اصلاً نہیں اور ان کا نشہ داروں کے ہاتھ بیچنا ان کا فعل ہے، و تخلل فعل فاعل مختاری قطع النسبۃ کما فی الھدایۃ و غیرھا۔ یہ صورتیں اس کے جواز کی نکلتی ہیں، اور اہل تقویٰ کو اس سے احتراز زیادہ مناسب۔ مخلصاً“(فتاویٰ رضویہ، ج23، ص574، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور(
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : عبدالرب شاکرعطاری مدنی
مصدق : مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر : Sar- 9445
تاریخ اجراء : 17صفرالمظفر1445 ھ/12اگست2025ء