گاڑی کی مائل ایج کم کرکے بیچنا کیسا؟

گاڑیوں کے کاروبار کرنے والے آدمی کا گاڑیوں کی مائلج کم کرنے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

گاڑیوں کا کاروبار کرنے والا جب کسی دوسرے ملک سے گاڑی منگواتا ہے تو وہ گاڑی کی مائلج کم کر دیتا ہے، جس سے چلنے کی کم یا زیادہ مقدار ظاہر ہوتی ہے، یہ عام طور پر دھوکہ دینے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ خریدار یہ سمجھے کہ گاڑی کم چلی ہے، تو اس میں کم مسائل ہوں گے لیکن ہم خریدار کو بتا بھی دیتے ہیں کہ ہم نے مائلج اتنی کم کر دی ہے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

عمومی طور پر خریدار کو مائلج کا کم کردینا بتایا نہیں جاتا، وہ یہی سمجھتا ہے کہ گاڑی کم چلی ہے، لہٰذا وہ اس کے حساب سے رقم دیتا ہے، اگر یہ صورت ہو تو یہ جائز نہیں، کیونکہ یہ خریدار کو دھوکہ دینا ہے جو کہ ناجائز و حرام ہے۔ ہاں! اگر اس کو واضح کردیا جائے کہ ہم نے اس قدر مائلج کم کی ہے،اور خریدار پھر بھی اپنی مرضی سے گاڑی خرید لے تو اب حرج نہیں کہ اب دھوکہ نہیں۔

دھوکہ دہی کی مذمت کے متعلق المعجم الکبیر للطبرانی میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشادفرمایا:

من غشنا فلیس منا و المکر و الخداع فی النار

ترجمہ: جو ہمارے ساتھ دھوکہ بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں اورمَکْر اور دھوکہ جہنّم میں ہیں۔ (المُعجم الکبیر للطبرانی، جلد 10، صفحہ138، حدیث: 10234، مطبوعہ: القاھرۃ)

علامہ عبد الرؤوف مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فیض القدیر میں فرماتے ہیں:

الغش ستر حال الشیء

ترجمہ: دھوکے کا مطلب ہے کہ کسی چیز کی اصلی حالت کو چھپانا۔ (فیض القدیر، جلد 6، صفحہ 185، مطبوعہ: مصر)

ایک مسئلہ کے تحت امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”خلاصہ یہ کہ جب خریداروں پر اس کی حالت مکشوف ہو اور فریب ومغالطہ راہ نہ پائے تو اس کی تجارت جائزہے۔ آخر گھی بیچنا بھی جائز اور جوچیز اس میں ملائی گئی اس کا بیچنا بھی، اور عدم جواز صرف بوجہ غش وفریب تھا، جب حال ظاہر ہے غش نہ ہوا، اور جواز رہا جیسے بازاری دودھ کہ سب جانتے ہیں کہ اس میں پانی ہے او ر باوصف علم خریدتے ہیں، یہ اس صورت میں ہے جبکہ بائع وقت بیع اصلی حالت خریدار پرظاہر نہ کردے، اور اگر خود بتادے تو ظاہر الروایت ومذہب امام عظم رضی اللہ تعالٰی عنہ میں مطلقا جائز ہے خواہ کتنا ہی میل ہو اگرچہ خریدار غریب الوطن ہو کہ بعدبیان فریب نہ رہا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ 150، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4304

تاریخ اجراء: 10 ربیع الآخر 1447ھ / 04 اکتوبر 2025ء