اپنی چیز بکوانے کے لیے گفٹ دینا کیسا ؟

اپنی چیز بکوانے کے لیے گفٹ دینا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ زیدکی بک ڈپو اورا سٹیشنری کی دکان (SHOP)ہے، کیا زید اپنی کتب اور اسٹیشنری کا سامان اسکول میں سیل کروانے کے لئے اسکول مالکان کو کچھ رقم، موٹر سائیکل، سکول کی تزئین و آرائش کا سامان، یا اسٹیشنری کا کوئی سامان، وغیرہ تحفہ میں دے سکتا ہے، تاکہ اسکول مالکان بچوں کو پابند کردیں کہ وہ اسکول میں استعمال ہونے والی کتب، رجسٹر اور اسٹیشنری وغیرہ  کا سامان زید کی دکان سے ہی خریدیں گے۔ اور جب کسی ایونٹ پر اسکول میں اسٹال لگانا ہوگا، تو صرف زید ہی لگائے گا، کسی اور کو اجازت نہیں ہوگی، تو اس صورت میں زید کا اسکول مالکان کو رقم وغیرہ تحفہ دینا اور اسکول مالکان  کا لینا کیسا ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں زید کا اسکول میں اپنی کتب، اسٹیشنری وغیرہ کا سامان سیل کروانے اور اسکول میں کسی ایونٹ پر صرف اپنا اسٹال لگوانے کے لئے اسکول مالکان کو رقم، موٹر سائیکل یااس جیسی دیگر قیمتی اشیاء دینا رشوت ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے، کیونکہ یہ قیمتی اشیاء اپنا کام نکلوانے کے لئے ہی دی جارہی ہیں اور اپنا کام نکلوانے کے لئے دی جانے والی چیز شرعاً تحفہ نہیں، بلکہ رشوت ہے۔ اور رشوت کا لین دین اسلام میں ناجائز وحرام اور باعثِ لعنت فعل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں شخصوں پر لعنت فرمائی ہے۔ البتہ ایسی معمولی اشیاء جو بک ڈپو مالکان عموماً اپنی دکان کی مشہوری ((Advertisement کے لئے اسکول مالکان اور ان کے علاوہ بھی دیگر لوگوں کو دیتے ہیں، جیسےقلم، پیڈ، کتب کے سیمپل (Sample of books)، وغیرہ، اور ان کےعوض اسکول مالکان کو اپنی دکان کا سامان سیل کروانے کا پابند بھی نہیں کرتے، توایسی معمولی اشیاء بک ڈپو مالکان کا دینا اور اسكول مالكان كا لينا جائز ہے۔

رشوت کا مال کھانے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿ سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ﴾

ترجمہ کنز الایمان: بڑے جھوٹ سننے والے، بڑے حرام خور۔ (القرآن الکریم، پارہ6، سورۃ المائدہ، آیت42)

مذکورہ بالاآیتِ مبارکہ کے تحت امام ابو بکر احمد بن علی جَصَّاص رازی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 370ھ/ 980ء) لکھتے ہیں:

”اتفق جمیع المتاولین لھذہ الآیۃ علی ان قبول الرشاءحرام، و اتفقو انہ من السحت الذی حرمہ اللہ تعالی“

 ترجمہ: اس آیتِ مبارکہ کی وجہ سےتمام مفسرین کرام نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بے شک رشوت قبول کرنا حرام ہے اور اس بات پر (بھی) اتفاق کیا کہ رشوت اس ”سُحت“ میں سے ہے، جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، جلد2، صفحہ541، دار الكتب العلميہ، بيروت)

رشوت دینے اور لینے والے دونوں شخصوں پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے لعنت فرمائی، چنانچہ سنن ابی داؤدمیں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

”لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم الراشی والمرتشی“

 ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت فرمائی۔(سنن ابی داؤد، باب فی کراھیۃ الرشوۃ، جلد3، صفحہ 300، المکتبۃ العصریہ)

رشوت کی تعریف کے متعلق علامہ ابن عابدین شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتےہیں:

”الرشوۃ بالکسر: ما یعطیہ الشخص للحاکم وغیرہ لیحکم لہ اویحملہ علی ما یرید “

 ترجمہ: رشوت(راء کے زیر کے ساتھ): وہ چیز جو کوئی شخص حاکم یا کسی اور کو اس غرض سے دیتا ہے کہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کرے یا اسے اس کام پر آمادہ کرے جو وہ چاہتا ہے۔(رد المحتار، کتاب القضاء، جلد 5، صفحہ 362، دار الفكر، بیروت)

اپنا کام بنانے کے لئے جو کچھ دیاجائے وہ رشوت ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340 ھ /1921ء) لکھتے ہیں: ”رشوت لینا مطلقاً حرام ہے۔کسی حالت میں جائز نہیں۔جو پرایا حق دبانے کے لیے دیا جائے رشوت ہے، یوہیں (یونہی)جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد23، صفحہ 597، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

رِشوت اور تحفہ میں فرق کے متعلق بحرالرائق شرح کنزالدقائق میں ہے:

”ان الفرق بين الهدية و الرشوة أن الرشوة ما يعطيه بشرط أن يعينه و الهدية لا شرط معها“

 ترجمہ: ہدیہ اور رشوت میں فرق یہ ہےکہ رشوت وہ مال ہے، جو اس شرط کے ساتھ دیا جائے کہ وہ (رشوت لینے والا رشوت دینے والے کی )کسی معاملے میں مدد کرے گا اور ہدیہ وہ مال ہے جس کے ساتھ کو ئی شرط نہ ہو۔(بحر الرائق شرح کنزالدقائق، جلد 6، صفحہ 285، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)

اسکول میں صرف یہ اسٹال لگائے گا، کسی اور کو اجازت نہ ہوگی، اسی طرح  کے سوال (اسٹیشن پر یہی اپنا مال بیچے دوسرا نہ بیچ پائے، اس کے لیے حکام کو کچھ دینا، اس)کے جواب میں فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”یہ ریل والوں کو روپیہ صرف اس بات کا دیتاہے کہ میں ہی بیچوں، دوسرا نہ بیچنے پائے، یہ شرعاً خالص رشوت ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 19، صفحہ 559، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  OKR-0033

تاریخ اجراء:  27 محرم الحرام 1447 ھ / 23 جون 2025 ء