خیار رؤیت کیا ہے؟ نیز اس کی مدت کتنی ہے؟

خیار رؤیت کیا ہے؟ اس کی مدت کتنی ہوتی ہے اور کس وجہ سے ختم ہوجاتا ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ خرید و فروخت (بیع و شراء) کے معاملات میں "خیار" یعنی کسی چیز کو قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اُن خیارات میں سے ”خیارِ رؤیت“ بھی ہے۔ اِس کی تعریف کیا ہے؟ اِس کی مدت کتنی ہوتی ہے؟ اور کن وجوہات یا اسباب کی بنیاد پر یہ خیار ختم یا ساقط ہو جاتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کوئی چیز بغیر دیکھے خرید لیتا ہے، لیکن جب بعد میں وہ چیز اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، تو اسے وہ ناپسند ہوتی یا اپنی مرضی اور توقع کے خلاف لگتی ہے۔ ایسے موقع پر شریعتِ مطہرہ نے خریدار کو یہ حق دیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس چیز کو واپس کر کے بیع کو منسوخ کر دے۔ اس حق کو فقہی اصطلاح میں ”خیارِ رؤیت“ کہا جاتا ہے۔

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:

من اشترى شيئا لم يره فهو بالخيار إذا رآه إن شاء أخذه و إن شاء تركه۔

ترجمہ:جس نے ایسی چیز خریدی جس کو دیکھا نہ ہو، تو دیکھنے کے بعد اُسے اختیار ہے، اگر چاہے تو لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔ (سنن الدار قطنی، جلد 3، صفحہ 382، مطبوعۃ مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

التعریفات الفقھیۃ “میں خیارِ رؤیت کی تعریف یہ ہے:

هو أن يشتري شيئاً لم يره فللمشتري الخيارُ إذا رآه و هو غيرُ موقَّت بمدة۔

ترجمہ: خیارِ رؤیت یہ ہے کہ خریدار کوئی ایسی چیز خریدے، جسے اس نے پہلے دیکھا نہ ہو، تو خریدار کو اسے دیکھنے کے بعد عقدِ بیع برقرار رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہوگا اور یہ اختیار کسی مدت کے ساتھ محدود نہیں ہے۔ (التعریفات الفقھیۃ، الصفحۃ 90، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

خریداری کے بعد چیز دیکھی اور وہ چیز جیسی بائع نے بیان کی تھی، ویسی ہی ہے، لیکن اِس کے باوجود کسی وجہ سے پسند نہیں آئی یا جیسی چاہتا تھا، ویسی نہیں ہے، تو پھر بھی خیارِ رؤیت حاصل رہے گا اور مشتری کو بیع ختم کرنے کا اختیار ہے، چنانچہ ”فتح القدیر“ اور ”الفتاوی الھندیۃ“ میں ہے:

و اللفظ للأوَّل:من اشترى شيئا لم يره فالبيع جائز، و له الخيار إذا رآه إن شاء أخذه بجميع الثمن و إن شاء رده سواء رآه على الصفة التي وصفت له أو على خلافها۔

ترجمہ: جس شخص نے کوئی چیز بغیر دیکھے خریدی ہو، تو یہ بیع جائز ہے اور جب وہ چیز دیکھے تو اُسے اختیار حاصل ہے، چاہے تو پوری قیمت دے کر اُسے لے لے اور چاہے تو واپس کر دے، خواہ وہ چیز ویسی ہو جیسی اُسے بیان کی گئی تھی یا اُس کے برعکس ہو۔ (فتح القدیر، جلد 06، صفحہ 335، مطبوعہ مطبعۃ مصطفی حلبی، مصر)

عقودِ مالیہ میں ملنے والے خیارات پر دو جلدوں میں تحقیقی کتاب ”الخیار وأثرہ فی العقود“ میں ہے:

إن خيار الرؤية الذي أثبته الحنفية يكون للمشتري سواء وجد المعقود عليه كما وصف له أم لا ، فهو مشابه لخيار الشرط من حيث حرية استعماله، و ليس كخيار العيب المرتبط بوجود عيب، و لا كخيار فوات الوصف المرغوب۔

ترجمہ: احناف کے نزدیک ”خیارِ رؤیت“ خریدار کو حاصل ہوتا ہے، چاہے بیچی گئی چیز ویسی ہی نکلے جیسی بیان کی گئی تھی یا ویسی نہ ہو۔ یہ اختیار ”خیارِ شرط“ کی طرح ہے، کیونکہ اس میں خریدار کو آزادی حاصل ہے کہ چاہے تو سودا مکمل کرے یا واپس لوٹا دے۔ یہ ”خیارِ عیب“کی طرح نہیں ہے جو کسی عیب کے پائے جانے پر ہوتا ہے، اور نہ ہی یہ ”خیارِ فواتِ وصف“جیسا ہے جو کسی مطلوب وصف کے نہ پائے جانے کی صورت میں ہوتا ہے۔ (الخیار وأثرہ فی العقود، جلد 2، صفحہ 503، مطبوعہ مطبعۃ مقھوی، کویت)

”بہارِ شریعت“ میں ہے:کبھی ایسا ہوتا ہے کہ چیز کو بغیر دیکھے بھالے خرید لیتے ہیں اور دیکھنے کے بعد وہ چیز نا پسندہوتی ہے، ایسی حالت میں شرع مطہرنے مشتری کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر دیکھنے کے بعد چیز کونہ لینا چاہے تو بیع کو فسخ کرد ے، اس کو خیار رویت کہتے ہیں۔ (بہار شریعت، جلد 2، صفحہ 663، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

خیارِ رؤیت کی مدت:

خیارِ رؤیت کی شرعی اعتبار سے متعین مدتِ انتہاء نہیں ہے، بلکہ اِس کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جب تک اِس خیار کو ساقط کرنے کا کوئی سبب نہیں پایا جائے گا، تب تک یہ خیار ثابت ہی رہے گا، خواہ کئی سال گزر جائیں۔ ”بدائع الصنائع“ میں ہے:

إن خيار الرؤية بعد الرؤية يثبت مطلقا في جميع العمر إلى أن يوجد ما يُبْطِله، فَيَبْطُل حينئذ، وإلا فيبقى على حاله۔

ترجمہ: خیارِ رؤیت دیکھنے کے بعد مطلق طور پر تمام عمر کے لیے ثابت رہتا ہے، یہاں تک کہ کوئی ایسی چیز پائی جائے جو اس کو باطل کر دے، تو اُس وقت یہ باطل ہو جاتا ہے، ورنہ اپنی حالت پر قائم اور ثابت رہتا ہے۔ (بدا ئع الصنائع، جلد 05، صفحہ 295، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے: خیار رویت کے لیے کسی وقت کی تحدید نہیں ہے کہ اُس کے گزرنے کے بعد خیار باقی نہ رہے، بلکہ یہ خیار دیکھنے پر ہے جب دیکھے۔ اور دیکھنے کے بعد فسخ کاحق اُس وقت تک باقی رہتا ہے، جب تک صراحۃًیا دلالۃً رضا مندی نہ پائی جائے۔ (بہار شریعت، جلد 2، صفحہ 663، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

اسباب ِسقوط:

خیارِ رؤیت کو ساقط کرنے والے اسباب دو طرح کے ہیں۔ دونوں کی مزید دو، دو صورتیں ہیں۔ نیچے جدول ملاحظہ ہو۔

(1)اختیاری

(1)صریح

واضح لفظوں سے بیع کو قبول کرنا۔

عملی مثال

زید نے ایک ایسی گاڑی خریدی، جسے اُس نے پہلے نہیں دیکھا تھا، البتہ جب زید نے گاڑی دیکھی تو اُس نے کہا: "میں اس بیع پر راضی ہوں "یا" میں نے خریداری منظور کی"۔ یہ الفاظ صراحتاً بیع کو لازم کر دیتے ہیں اور خیارِ رؤیت ساقط ہو جاتا ہے۔

(2) قائم مقام صریح

کوئی ایسا عمل کرنا جو بیع کو قبول کرنے پر دلالت کرے۔

عملی مثال

پچھلی مثال کی طرح ہی کار کی بیع ہوئی۔ خریداری ہو جانے کے بعد جب زید نے گاڑی دیکھی، خاموش رہا اور گاڑی پر سوار ہو کر اُسے لے گیا، پیٹرول ڈلوایا اور استعمال کرنے لگا، یا آگے کسی کو کرائے پر دے دی۔ یہ افعال بیع کی رضامندی پر دلالت کرتے ہیں اور خیارِ رؤیت ساقط ہو جاتا ہے۔

(2)ضروری

(1)موت

اگر خریدار خیارِ رؤیت کا استعمال کیے بغیر مر جائے تو خیار ساقط ہو جاتا ہے اور بیع اس کے ورثاء کے لیے لازم ہو جاتی ہے۔

عملی مثال

زید نے ایک زمین خریدی جو اُس نے دیکھی نہیں تھی، لیکن زمین دیکھنے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا۔ اب بیع لازم ہو گئی اور ورثاء اس کو رد نہیں کر سکتے۔

(2)مبیع کی ہلاکت یا نقص

اگر مال خریدار کے قبضے میں آ کر قدرتی آفت (مثلاً آسمانی بجلی، سیلاب، آندھی) سے ہلاک یا خراب ہو جائے تو خیارِ رؤیت ساقط ہو جاتا ہے اور خریدار پر بیع لازم ہو جاتی ہے۔

عملی مثال

زید نے ایک بکری خریدی، جسے اس نے دیکھا نہیں تھا۔ بکری زید کے قبضے میں آئی اور اُس نے ابھی خیارِ رؤیت استعمال نہیں کیا تھا، کہ اگلے ہی دن آسمانی بجلی سے مر گئی۔اب شرعی حکم یہ ہے کہ بکری اس کی ملکیت میں متعین ہو گئی اور بیع لازم ہو گئی، خیار ساقط ہو گیا۔

مذکورہ بالا اسبابِ سقوط کے متعلق”بدائع الصنائع“ میں ہے:

ما يسقط به الخيار بعد ثبوته ويلزم البيع في الأصل نوعان: اختياري، و ضروري، و الاختياري نوعان: صريح، و ما يجري مجرى الصريح دلالة (أما) الصريح و ما في معناه فنحو أن يقول: أجزت البيع أو رضيت أو اخترت۔۔۔ (و أما) الدلالة فهو أن يوجد من المشتري تصرف في المبيع بعد الرؤية يدل على الإجازة و الرضا۔۔۔ (و أما) الضروري فهو كل ما يسقط به الخيار، و يلزم البيع من غير صنعه نحو موت المشتري و كذا إذا هلك بعضه أو انتقص بأن تعيب بآفة سماوية۔

اوپر جدول سے ترجمہ واضح ہے۔ (بدا ئع الصنائع، جلد 05، صفحہ 295،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9343

تاریخ اجراء: 26 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 24 مئی 2025ء